قدرت نے انسان میں مختلف خیالات و افکار جمع کئے ہیںجو ہر انسان کے مختلف ہیں۔انسان کے اوصاف ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں وہیں خیالات و افکار بھی ایک جیسے نہیں ہوتے۔ لیکن انسانی فطرت کا جو تقاضا ہے وہ ایک جیسا ہے انسان سیلفش ہے۔ اپنے مطلب تائیں وہ بڑا عاجزی و انکساری کا پیکر ہوتا ہے۔ اس کے ہم خیال لوگ بھی اتنے ہی نیک و کامل ہوتے ہیں جتنا وہ خود کو حق پر سمجھتا ہے۔معاشرے کو سدھانے والا ایک استاد ہوتا ہے اور معاشرے میں بگاڑ کا سبب بھی ایک استاد بنتا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ وہ اپنی ذاتی رائے یا پھر ذاتی غم و غصہ نکالتا ہے تووہ معاشرے میں بگاڑ پید اکر دیتا ہے۔ بچہ پیدا ہوتا ہے ماں باپ سے جو سیکھتا ہے بہن بھائیوں کو جو کرتے دیکھاتا ہے اسی پر عمل کرتا ہے۔ انسان کی بنیادی تربیت ماں باپ کرتے ہیں شعوری تربیت استاد کرتا ہے اگر استاد خود تنگ نظر اور شعوری طور پر مستحکم نہ ہو تو معاشرہ بگاڑ کی طرف چلا جاتا ہے۔
ہمارے معاشرے کو خراب کرنے میں 80 فیصد استاد کا ہاتھ ہے قوم اس وقت اخلاقی زوال پزید ہےاسکی بنیادی وجہ ایک استاد دوسرے استاد کی اپنے شاگردسے عزت کروانا پسند نہیں کرتا بلکہ شاگرد کو عزت کرنا بھی نہیں سیکھا رہا۔ یہاں اختلاف رائے کو ذاتی دشمن سمجھنا تصور کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں دو طبقوں نے ملک کی عوام کو اخلاقی گرواٹ تک پہنچانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ایک مدرسہ میں پڑھانے اور پڑھنے والے طبقہ ہے دوسرا یونیورسٹی میں پڑھانے والے اساتذہ کا گروپ ہے اللہ پاک نے یہ کائنات تخلیق کی۔اس کائنات کے بننے سے پہلے اچھائی تھی برائی کا کوئی تصور موجود نہیں تھا فرشتے ہر وقت عبادت میں مشغول رہتے تھےکائنات بنی برائی کا تصور آیااور دو راستے مل گئے ایک اچھائی کا اور دوسرا برائی کا لیکن مولوی کا فل زور اچھائی پر ہوتا ہے۔ یہاں اچھائی کوئی اللہ کی رضا نہیں ہوتی بلکہ یہ اچھائی وہ ہوتی ہے جو اس کے خیالات ہیں وہ جس شخصیت کا دیوتا ہے اسکی اچھائی کے بارے میں بات کرتا ہے اس نے کسی ایک امام کو پکڑا دوسرے کی بات تک نہیں مانی مطلب اس کو لگا کہ یہ ذاتی خیال بہتر ہے یا ہم خیال اس نے مذہب کے نقصان کا کبھی نہیں سوچا نہ ہی اسلام کے صیح عمل کی دوری کا سوچا بس اپنی فالونگ شپ پر روز دیا۔ وہ شخصیت پرستی میں پڑ گیا۔ اور اس شخصیت کومشہور کرتا رہا۔
یہی صورتحال یونیورسٹی کے استادوں کی ہے انہوں نے ایک پولیٹکل لیڈر کو پکڑ کر پاکستان کے سسٹم کو برا بھلا کہا نوجوانوں کو مایوس کیا انکو ہمیشہ اس سسٹم سے باغی ہونے کا کہادوسروں کے سیاسی لیڈر کا صیح طریقے سے نام لینا نہیں سیکھایا۔ ان کو یہ نہیں کہا کہ بچے تم اس ملک کا مستقبل ہو اس ملک کو تم نے لوگوں نے ٹھیک کرنا اس ملک نے تمہیں بہت کچھ دیا ۔تمہارے ماں باپ داد پردادا لوگوں نے جیسی زندگی گزاری ہے تم لوگ ان سے بہتر گزار رہے ہو ۔ کبھی یہ نہیں سیکھایا کہ اس ملک کی مٹی سے بےوفائی نہ کرنا۔ یہ ملک بڑی قربانیوں سے بنا تھا ہم نے اس کو دنیا پر حکمرانی کرنے کیلئے تیار کرنا ہے۔ یہاں استاد یہ چیزیں اسی وجہ سے نہیں سکھاتا کیونکہ وہ خود کچھ نہیں کر سکاجب انسان خواب دیکھ کر اس میں ناکام ہوتا ہے تو وہ خود کو تسلی دینے کیلئے سسٹم پر الزام لگا کر خود کی ناکامیوں پر پردہ ڈال دیتا ہے۔ اگر ایک بندہ کسی سے لڑکی سے محبت کرتا ہے وہ اگر بالفرض ناکام ہو جاتا ہے تو وہ اس ناکامی کو اور اپنی ناکام محبت کو چھپانے کیلئے اور خود کو تسلی دینے کیلئے یہ کہتا ہے کہ میری پاک محبت تھی میں نے اس کے جسم سے محبت نہیں کی حالانکہ اس بےوقوف کو اتنا بھی سمجھ نہیں کہ محبت میں جسم کی بھی ضرورت ہوتی ہے اگر آپ کی پاک محبت ہے تو وہ آپ کو مل جائے تو کیا اس کو الماری میں سجا کر رکھ دیں گے کہ میری پاک محبت ہے ؟ استاد بہت ناکام ہوتے ہیں وہ معاشرے کو خراب کرتے ہیں نوجوانوں کو مایوس کرتے ہیں تاکہ ان کی ناکامی کا پردہ چاک نہ ہو۔
میں استادوں کا احترام کرتا ہوں کیونکہ اللہ نے اپنے محبوب کو ایک معلم بنا کر بھیجا۔ لیکن استاد نے معاشرے کو سدھارنے کی بجائے نفرت دی ہے۔ جتنے ممالک نے ترقی کی ہے انہوں نے شاگرد ایسے تیار کئے ہیں جنھوں نے آ کر حکومتیں کی ہیں انہوں نے نطام بدلا ہے وہ اپنے ملک کے مسائل پر پریشان نہیں ہوئے۔ ہماری قوم کا مسئلہ یہ ہے وہ استاد ہو وکیل ہو سیاستدان ہو یا پھر صحافی ہو وہ چاہتا ہے کہ میری رائے کو قانون ہی سمجھا جائے کچھ دن پہلے چیف جسٹس آف پاکستان نے لائیو سیشن رکھا وہاں وکلاء قانونی بات کرنے کی بجائے اپنی رائے کی بات کر رہے تھےکہ میری رائے یہ ہے۔ قانون کو جب آپ تھڈے لائن لگائیں گے تو سسٹم کیسے ٹھیک ہوگا؟ میں ایک پی ایچ ڈی ڈاکٹر کو جانتا ہوں وہ کلاس میں جاتے ہی کہتے ہیں یہاں کوئی نواز شریف کا چاہنے والا ہے تو میری کلاس سے نکل جائے۔ جب استاد اور ایک پی ایچ ڈی بندے کی سوچ کا یہ لیول ہوگا وہ کیا معاشرے کو سیدھا کرے گا ؟ یونیورسٹی کے اساتذہ کی اکثریت کا یہی حال ہے وہ ہر وقت کلاس میں یا اینٹی اسٹبلشمنٹ سوچ دے رہے ہوتے ہیں یا پھر مایوس کر رہے ہوتے ہیں کہ یہاں رہنا محال ہوگیا ہے۔ کوئی قانون نہیں ہے آرمی نے یہ کردیا ہے سیاستدان فلاں ہیں ان کی اپنی پسند کے سیاستدان ان کیلئے فرشتہ ہوتے ہیں۔ عمران خان کی محبت میں کئی لوگ پڑھے لکھے جنھوں نے نوجوانوں کو اینٹی ریاست بیانیہ دیا ہے۔ ہماری کلاس میں اساتذہ بھی یہی کام کر رہے ہوتے ہیں۔
شعوری تربیت میں جب کمی رہ جاتی ہے تو معاشرہ ترقی نہیں کرتا بلکہ زوال پزیر ہوتا ہے۔ پھر پڑھے لکھے اور ان پڑھ میں کوئی فرق نہیں ہوتا شعوری تربیت میں برداشت سیکھتے ہیں یہ وہ عمر ہوتی ہے جب انسان جذبات کی عمر سے نکل کر خیالات کی دنیا میں آ رہا ہوتا ہے جب ان کو پہلے ہی اینٹی ریاست کیا جائے گا ان کو مایوس کیا جائے گا ان کو یہ کہا جائے گا یہاں رہنا فضول ہے یہاں کوئی رول آف لاء نہیں ہے تو اس نے اس معاشرہ کیلئے تھوڑی تنگ ودو کرنی ہے ۔مجھے آج مجھے بڑا دکھ ہوا ایک پروفیسر صاحبہ نے بڑی آسانی سے کہ دیا کہ یہاں کوئی رول آف لاء نہیں ہےبچہ جو سیکھتا ہےوہی کرتا ہے۔بڑی حیرانگی ہوئی کہ ایک پی ایچ ڈی شخص بھی شعوری تربیت کی بجائے مایوسی دلا رہا ہے۔
ایک شخص نے مجھے کہا تھا کہ پی ایچ ڈی بھی جاہل ہوتے ہیں میں نے اس کو کہا آپ بالکل غلط ہیں۔ لیکن میں آج مجبور ہوں کہ آج کاا ستاد شعور دینے میں ناکام ہے وہ شعور کی بجائے جہالت پر زیادہ فوکس کر رہا ہے کیونکہ وہ شخصیت پرستی کا شکار ہے۔ وہ فیلڈ میں ناکام ہے۔ اس میں کوئی قابلیت نہیںہے۔ وہ معاشرے کیلئے اچھا سوچ نہیں سکتا کیونکہ وہ شعوری سوچ سےمعذور ہے۔ وہ معاشرے میں کچھ کرنے کے قابل نہیں ہے وہ اتنا لاچار ہے کہ اس کو مایوسی کے سوا کچھ نظر نہیں آ رہا کیونکہ وہ شخصیت پرستی میں نابینا ہو چکا ہے وہ قانون یا فیکٹ پر بات نہیں کر سکتا ۔ میرے ڈیپارٹمنٹ کے دو لوگ ہیں جو شخصیت پرستی پر بات نہیں کرتے بلکہ سسٹم کی فیکٹ پر بات کرتے ہیں وہ سیاسی ہو معاشی ہو مذہبی ہو یا پھر ریاستی ہو سوال کرنے میں اور کلاس پڑھنے بڑا لطف آتا ہے کیونکہ وہ بچے کو راستہ دکھا رہے ہوتے ہیں فیصلہ لینے کی صلاحیت سیکھا رہے ہوتے ہیں۔
اس معاشرے کو ڈاکٹر عظمیٰ ناز صاحبہ، ڈاکٹر سائرہ صاحبہ اور ڈاکٹر وقاص بخاری اور ڈاکٹر یاسر خان جیسے اساتذہ کی ضرورت ہے۔ جو سٹوڈنٹ کو نصاب سے ہٹ کر شعوری تعلیم دیتے ہیں جو اپنی ذاتی رائے کی بجائے فیکٹ پر بات کرتے ہیں۔ یونیورسٹیوں نے بھاری فیس کے چکروں میں ناکام لوگوں کو ڈگریاں پکڑا دیں طلباء نے نمبرز لئے ہیں سکلز نہیں سیکھی شعوری تربیت حاصل نہیں کی ۔ زیادہ نمبرز لینے والے یہ سسٹم سے مایوس لوگ جب سسٹم میں آتے ہیں تو سسٹم کا کباڑہ کر دیتے ہیں۔ یہ ان اساتذہ سے شعور لے کر آتے ہیں جنھوں نے زندگی میں مایوسی پھیلائی پھر یہ اس ملک کا کباڑہ کرنے کے بعد باہر نکل جاتے ہین۔ اکثریت نمبرز لینے والے تو دھکے کھاتے ہیں کیونکہ قدرت کا فارمولا ہے کہ جو گمان کرتے ہو وہی ہوتا ہے یہ سسٹم اور ملک سے مایوس ہوتے ہیں تو سسٹم ان کو قبول نہیں کرتا پھر یہ استاد بن جاتے ہیں۔ معاشرے کو سدھارنا ہے تو اساتذہ کو جذبات سے نکل کر خیالات کی دنیا میں آنے والے طلباء میں مایوسی یا ناکامی کا راستہ نہیں دکھانا چاہئے۔۔