اراکین پارلیمنٹ نے تمباکو کے استعمال کو نوجوانوں اور قوم کے لیے خطرہ قرار دیتے ہوئے ملک میں تمباکو کی مصنوعات پر ٹیکس بڑھا کر اس کی کھپت کو کم کرنے کے لیے مشترکہ کاوشوں پر زور دیا ہے۔
ہیومن ڈویلپمنٹ فاؤنڈیشن (HDF) اور شراکت دار تنظیموں کے زیر اہتمام ایک تقریب میں تمباکو کے استعمال کے وسیع اثرات سے نمٹنے کے لیے جامع طریقوں پر تبادلہ خیال کرنے کے لیے پالیسی سازوں، ماہرین، کارکنوں اور اسٹیک ہولڈرز نے شرکت کی،تقریب سے مہمان خصوصی رکن قومی اسمبلی شہلا رضا نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ قیمتوں میں اضافہ سے سگریٹ نوجوانوں کی پہنچ سے دور کیا جا سکتا ہے۔ صحت عامہ کے تحفظ اور سماجی بہبود کو فروغ دینے کے لیے تمباکو کنٹرول کے موثر اقدامات کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے شہلا رضا نے کہا معاشرے میں تمباکو کے استعمال کی حوصلہ شکنی کے لیے پوری قوم اور تمام اسٹیک ہولڈرز کو ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔
اس موقع پر پاکستان میں قائم تھنک ٹینک سینٹر فار ریسرچ اینڈ ڈائیلاگ (CRD) کی ڈائریکٹر مریم گل طاہر نےکہا کہ سروے سے پتہ چلتا ہے کہ سگریٹ کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے 18 فیصد نے سگریٹ نوشی چھوڑ دی ہے۔ٹیکس میں اضافہ صحت عامہ اور حکومتی محصول دونوں کے لیے ایک جیت کا وعدہ کرتا ہے۔تقریب کے دوران ڈبلیو ایچ او کے ٹیکنیکل ایڈوائزر شہزاد عالم نے کہا کہ تمباکو کی غیر قانونی تجارت پر عالمی ادارہ صحت (WHO) کی تحقیق میں کہا گیا ہے کہ مجموعی طور پر پاکستان میں سگریٹ کی غیر قانونی تجارت تمباکو کی صنعت کے دعووں کے برعکس کل تجارت کا صرف 23.1 فیصد ہے
اس موقع پر رکن پارلیمنٹ نیلسن عظیم نے کہا کہ پاکستان میں تمباکو سے پیدا ہونے والی بیماریوں سے صحت کی دیکھ بھال کے چیلنجز ہیں۔ قوم کو صحت کی دیکھ بھال پر سالانہ 615 ارب روپے کے خطرناک بوجھ کا سامنا ہے۔۔محمد صابر نے تمباکو پر ٹیکس میں اضافے کے فوائد پر زور دیتے ہوئے کہاجولائی 2023 سے جنوری 2024 کے درمیان ریونیو میں نمایاں اضافہ ہوا ہےجو 122 ارب روپے تک پہنچ گیا ہے۔تقریب کا اختتام تمباکو کے استعمال کے خلاف جنگ میں تعاون جاری رکھنے کے عزم کے ساتھ ہوا۔