سینیٹر فیصل واوڈا کا کہنا ہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس بابرستار کو ایک سال بعد چیزیں یاد آرہی ہیں۔ عوامی نمائندے دُہری شہریت نہیں رکھ سکتے تو آپ کیسے رکھ سکتے ہیں؟
پریس کانفرنس کے دوران سینیٹر فیصل واوڈا نے کہا کہ 30 اپریل کواسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کو خط لکھا مگر 15 روزہوگئے مگر کوئی جواب نہیں آیا، جسٹس بابرستار کو ایک سال بعد چیزیں یاد آرہی ہیں، صرف الزمات سے کام نہیں چلے گا اب الزامات کےشواہد بھی دینا پڑیں گے۔
فیصل واوڈا نے کہا کہ لوگوں کے دلوں میں شک وشبہات آرہے ہیں، اگرالزامات کاریکارڈ نہیں توتشویش ہوگی، میں سینیٹرہوں مجھے جواب نہیں مل رہا توعام آدمی کو کیسے ملے گا، کوئی پیپرورک ہے تو وہ فراہم کیاجانا چاہیے۔
فیصل واوڈا نے کہا کہ آرٹیکل 2کے تحت کہا گیا کہ کوئی لالچ نہیں ہونی چاہیے، بتایا جائے کس نے آپ کے کام میں مداخلت کی، انہوں نے مزید کہا کہ ججز کو شفاف ہوناچاہیے اورالزامات سے دور ہونا چاہیے، 28اپریل چھٹی کے دن جسٹس بابرستار سے متعلق پریس ریلیزجاری ہوئی، کہا گیا وہ پاکستانی ہے، پاکستان کسی کے باپ کانہیں، جو میرےلیے ہوگاان کے لیےبھی وہی ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ ریکوڈک میں اربوں روپے کانقصان کردیا، باربارانٹیلی جنس اداروں کانام لیاجارہاہے، انٹیلی جنس اداروں پرالزامات کےثبوت فی الفورچاہئیں، شواہد دیں ہم آپ کے ساتھ کھڑے ہوں گے، پاکستان کے ساتھ بہت مذاق اورکھلواڑ ہوگیا۔
فیصل واوڈا نے کہا کہ امید کرتے ہیں آپ کاجواب جلد آئے گا، اب کوئی پگڑی اچھالےگا توہم اس کی فٹبال بنادیں گے،فیصل واوڈا جج دہری شہریت کے ساتھ کیسے بیٹھے ہیں، ضمانتیں آپ دیتے ہیں،پردوں کے پیچھے باتیں نہ کریں، اگر فوج نہیں ہوگی تو پاکستان بھی نہیں بچے گا، فوجی سرحدوں پر شہادتیں دےرہے ہیں اسی لیے ہم یہاں بیٹھے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ذوالفقاربھٹو کو40سال بعد انصاف ملا کہ عدالتی قتل کیا گیا، آصف زرداری کو11سال جیل میں رکھا گیا،انصاف نہیں ملا، نوازشریف کو تنخواہ نہ لینے پرنکال دیاگیا،فیصل واوڈا کا کہنا تھا کہ ہمارے لئے پاکستان اہم ہے، پاکستان ہے توہم ہیں، ملک کوبیرونی،اندرونی سازشوں، انتشار، دشمنوں سے بچایا جائے۔