نگران وفاقی وزیر آئی ٹی عمر سیف کا کہنا ہے کہ پاکستان میں 33 کمپنیوں نے 5 کروڑ ستر لاکھ کم قیمت موبائل فونز بنائے۔ انہوں نے آئندہ سال جنوری تک عوام کو میڈ ان پاکستان موبائل فونز قسطوں پر ملنے کی نوید سنادی۔ انہوں نے آئندہ 2 سال میں 2 لاکھ افراد کو تربیت دینے اور 5 لاکھ فری لانسرز کیلئے ای روزگار سینٹرز بنانے کا اعلان کردیا۔
سماء سے خصوصی گفتگو میں نگران وزیر آئی ٹی اور ٹیلی کام ڈاکٹر عمر سیف نے بتایا کہ پاکستان دنیا کی پانچویں بڑی آبادی اور ساتویں بڑی ٹیلی کام انڈسٹری ہے، ملک کی 33 کمپنیاں 5 کروڑ 70 لاکھ کم قیمت موبائل فونز بنا چکیں، جن میں سے ایک کروڑ 20 لاکھ برآمد کئے گئے۔
ڈاکٹر عمر سیف نے کہا کہ ملک میں ساڑھے 19 کروڑ سیل فون یوزرز کا ہونا بہت بڑی بات ہے، زرمبادلہ نہ ہونے کے باوجود موبائل فونز میں سے بیشتر درآمد کئے جاتے ہیں، کوئی وجہ نہیں کہ موبائل فونز ملک کے اندر اسمبل اور مینوفیکچر نہ ہوسکیں، میڈ ان پاکستان فون کم قیمت ہوں گے، ایک فون اوسطاً قیمت 15 ہزار روپے کا ہوگا۔
انہوں نے سوال کیا کہ آئی فون انڈیا میں بن رہے ہیں تو پاکستان میں کیوں نہیں بن سکتے؟، دنیا کی 5ویں بڑی آبادی، 7ویں بڑی مارکیٹ میں استعمال کی چیزیں نہ بننا پالیسی کی ناکامی ہے۔
انہوں نے آئندہ سال جنوری 2024ء تک عوام کو میڈ ان پاکستان موبائل فونز قسطوں پر ملنے کی نوید بھی سنا دی۔ کہا کہ پالیسی بنالی ہے جنوری 2024ء تک لوگوں کو مقامی تیار کردہ فونز قسطوں پر آسانی سے دستیاب ہوں گے۔
نگران وزیر آئی ٹی کہتے ہیں کہ پاکستانی کی آئی ٹی برآمدات 2.6 ارب ڈالر جبکہ بھارت کی 150 ارب ڈالر ہیں، مسائل کی بڑی وجہ تربیت یافتہ افرادی قوت کی کمی ہے، پاکستان کی آئی ٹی انڈسٹری کی ضرورت 7 سے 8 لاکھ افراد کی ہے جبکہ دستیاب صرف ایک لاکھ 20 ہزار ہیں۔
انہوں نے آئندہ 2 سال میں 2 لاکھ افراد کو تربیت دینے اور 5 لاکھ فری لانسرز کیلئے ای روزگار سینٹرز بنانے کا اعلان کردیا۔ نگران وزیر آئی ٹی نے آئی ٹی برآمدات 10 ارب ڈالر تک لے جانے کا عزم بھی ظاہر کردیا۔
ڈاکٹر عمر سیف نے کہا کہ جامعات میں طلبا کو تربیت دینے کی ضرورت ہے، 2 سال میں 2 لاکھ لوگ تیار کرنے کا پلان ہے، آئی ٹی کا ایک تربیت یافتہ فرد ملک کیلئے سالانہ اوسطاً 25 ہزار ڈالر کماتا ہے، 2 لاکھ تیار لوگ ملک کیلئے 5 ارب ڈالر کماسکتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ فری لانسنگ بھی بہت بڑا شعبہ ہے، حکومت نے لگ بھگ 15 لاکھ لوگوں کی تربیت کی، تربیت یافتہ لوگوں کے پاس کہیں جاکر کام کرنے کا انفرا اسٹرکچر موجود نہیں، آئندہ 2 سے 3 سال میں 5 لاکھ لوگوں کیلئے ای روزگار سینٹرز بنانا چاہتے ہیں۔