تحریر : احسان الرحمن دانش
لیکچرار اردو
گورنمنٹ گریجوایٹ کالج جڑانوالہ
یہ ایک رومان پرور دن تھا گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور کا بخاری آڈیٹوریم طلبہ و طالبات سے کھچا کھچ بھرا تھا جو برسوں کی محنت کا ثمر ڈگری کی صورت حاصل کرنے کی غرص سے کانووکیشن کے موقع پر جمع تھے۔
اتنے میں پورے ہال میں سناٹا سا ہوگیا۔مہمان خصوصی تشریف لا چکے تھے۔تقریب اپنی نوعیت کے اعتبار سے منطقی انجام کی طرف گامزن تھی جب مہمان خصوصی کو سٹیج پر دعوت خطاب دی گئی۔
ایک دھان پان کے آدمی جودیکھنے میں کسی انٹیلیجنس ایجنسی کے اعلی عہدیدار دکھائی دیتے تھے سٹیج پر نمودار ہوئے آنکھوں پہ سادہ مگر دلکش عینک ٹانکے انہوں نے اپنی بات کا آغاز غیر روایتی طور پر علامہ اقبال کے اس شعر سے کیا۔
خیرہ نہ کر سکا مجھے جلوہ دانش فرنگ
سرمہ ہے میری آنکھ کا خاک مدینہ و نجف
اس شعر کا ہماری سماعتوں سے ٹکرانا تھا کہ توجہ کے تمام مراکز ان کے لبوں کی جنبش اور ٹکراو سے پیدا ہونے والے ہر لفظ پر مرکوز ہو گئے۔وہ الفاظ بولتے جا رہے تھے اور یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے ہمارے سامنے کوئی فلم چل رہی ہے جس کا مرکزی کردار ہمارے سامنے سٹیج پر موجود تھا ۔
اس شعر کو مکمل کرنے کے بعد وہ ایک کہانی سنانے لگے آپ بھی وہ کہانی سنیں
گاوں کے ایک بچے کے والد کی وفات کے بعد اس کی ماں اسے ایک سکول میں ایک استاد کے پاس چھوڑ آئی۔استاد نے بچے کو تختی پربیٹری سیل سے نکلے سکہ کی مدد سے ایک یہی شعر لکھ کر حکم دیا کہ یہ سکہ پکڑ کر ان الفاظ کے اوپر اوپر پھیرتا رہے۔ کچھ دنوں تک یہی عمل دہرایا جاتا رہا اور بعد میں اس کی تعلیم و تربیت کا انتظام وانصرام ہونے لگا۔ وقت کا پہیا گھومتا رہا۔ اس لڑکے نے گاوں سے ابتدائی تعلیم مکمل کی، پوزیشن حاصل کرکے وظیفہ کا حقدار پایا اور کالج کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد پاکستان کے شعبہ طب کے سب سے بہترین ادارے کنگ ایڈورڈمیڈیکل کالج سے طب کی تعلیم حاصل کرنے لگا۔ابھی تک کہانی میں کوئی موڑ نہ تھا اور اس شعر کی اس کہانی سے مناسبت بھی ہماری سمجھ سے بالاتر تھی یوں ہم انجان بنے ابھی تک ہمہ تن گوش اس کہانی میں کسی دوراہے کے منتظر تھے جو ہماری روح کو تقویت اور جلا بخش سکتا۔
کچھ دیر توقف کے بعد وہ گویا ہوئے۔
وہ بچہ ایم بی بی ایس میں گولڈ میڈ ل حاصل کرنے کے بعد سی ایس ایس میں بھی اول پوزیشن کا حقدار ٹھہرا۔ سول سروس کے دوران پبلک ایدمنسٹریشن میں ایم اے کرنے کیلئے سرکاری سطح پر جب وہ وظیفہ حاصل کرکے فرنگی ملک پہنچا تو اس کی آنکھوں میں وہ شعر ، وہ تختی اس تختی پر لکھے اس شعر پر ان کے سکے کا گھومنا گھومنے لگا۔تب تک وہ شعر اپنے مقصد کی معراج تک پہنچ چکا تھا۔وطن واپسی پر ان کے ذہن میں اخوت کا پورا نقشہ بن چکاتھا۔انہوں نے بحثیت ڈپٹی کمشنر سول سروس سے استعفی دے کر انتہائی نامساعد حالات میں اخوت ایسے ادارے کی بنیاد رکھ دی جو بعد ازں پوری دنیا میں مائیکروفنانس کا اپنی نوعیت کا سب سے بڑا ادارہ بن کر ابھرا۔
یہ ڈاکٹر امجد ثاقب تھے اور یہ کہانی ان کی اپنی کہانی تھی۔ جنہیں گورنمنٹ کالج یونیورسٹی کی کانوو کیشن میں بحثیت مہمان مدعو کیا گیا تھا۔ اور ہمارے لئے یہ اعزاز کی بات تھی کہ ہم کسی معاشی و معاشرتی لٹیرے سیاستدان،صاحب اختیار یا وڈیرے کی بجائے ایک سماجی مسیحا سے سند وصول رہے تھے۔د ل میں شدید ارمان پیدا ہوا کہ رک کر اس شخص کے ہاتھ چوم لئے جائیں۔
وقت کا دھارا بدلتا چلا گیا ا۔ ایک صبح لحاف میں سر دیے موبائل سکرین پر ان کی کتاب اخوت کا سفر نظروں سے گزری تو اخوت کے اس سفر میں ایک قاری کی حیثیت سے شریک سفر ہو گیا۔کتاب کے آغاز میں جب تین چار صفحات ہی پڑے تو یوں محسوس ہونے لگا کہ جیسے میں جہاز میں ان کے ساتھ والی نشست پر بیٹھا ہوں اور وہ نظریں جہاز کے شیشوں پر جمائے مجھے اخوت کے سفر کی تمام کارگزاری سنا رہے ہیں کتاب سے حقیقت تک کا سفر ایک بہترین سفر نامہ نگار ہی کروا سکتا ہے اور پھر پڑھتے پڑھتے جب اس واقعہ پر پہنچا کہ افسرشاہی کی نوکری سے استعفی دینے کے بعد جب وہ اپنے گھر سے چند کرسیاں اٹھا کر اخوت کے دفتر لے جانے لگے اور ان کی ماں نے دل چیرنے والا جملہ ان سے بے ساختگی میں کہ دیا جس کا تذکرہ انہوں نے اپنی ا کتاب میں درج کیا تو میری آنکھوں سے آنسو قطار اندرقطار رخسار پر تیرنے لگے۔ روح میں لطیف سا گدازپیدا ہوا اور وجود حیرت سے مرتعش ہونے لگا۔یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے زندگی کا مکمل بوجھ ان کے اس واقعے نے اپنے ذمہ اٹھا کر مجھے آگے بڑھنے کا حوصلہ عطا کر دیا تھا۔
اگلے روز معمول کے مطابق تدریسی فرائص کی انجام دہی کیلئے کالج پہنچا تو ایک طالبہ قومی سطح کے ایک سو لفظی کہانی کے مقابلے میں شرکت کی غرص سے تاریکیوں کے شہر میں امید کا چراغ کے عنوان سے کہانی کی طالب تھی مجھ سے مشورہ کیا تو میرے نارسا خیالات کی رسائی میں اخوت کے سفر کی کہانی سے بہتر کہانی کیا ہو سکتی تھی۔اسے ایک خاکہ کی شکل میں کہانی کا عنوان اور کہانی مل چکی تھیں۔اس طالبہ نے جو کہانی بنی یہاں درج اس لئے کر رہا ہوں کہ اس کا ایک ایک لفظ اخوت کے سفر اور اس کے مسافر کی داستان حیات کا سنہرا باب ہے۔آئیے پہلے وہ سو لفظی کہانی پڑھیں۔
In the heart of Lahore, where the sun dipped its brush into sepia tones,
Zainab walked the cobbled streets. Her hands cradled jasmine blooms.
Destitution clung to her like the dust on her worn slippers. She had once
been a bride, her hennaed palms promising forever. But life's tempests had
stolen her husband, leaving her with a son who hungered for more than
petals.
Zainab passed by Akhuwat. She glimpsed at the entrance-97a threshold she
dared not cross. The weight of her son's hunger pressed upon her heart.
Dr. Saqib's footsteps-97concealed footfalls, traced her path-97eyes filled with
compassion: "Your flowers carry more than fragrance. They carry dreams."
Zainab's heart swelled. "But what of my dreams, sir?" His smile dispelling
gloom, whispered, "Akhuwat awaits you a flower shop at our entrance."
Dreams bloomed, in Jasmine-scented corner. Her son traced jasmine
patterns, on his notebook.
Fatima Numan
اس کی تکمیل کے بعد جب اسے مقابلے کیلئے جمع کروایا تو طالبہ سے پرتیقن لہجے میں کہ دیا تھاکہ ایسے خوبصورت سفر کی کہانی سے زیادہ خوبصورت کہانی ا ور ہو ہی نہیں سکتی۔ یہی ہوا یہ کہانی اس قومی سطح کے مقابلہ میں اول ٹھہری۔
اخوت کا سفر اور اس کے مسافر ڈاکٹر امجد علی ثاقب در حقیقت تاریکی کے شہر میں امید کا چراغ ہیں۔آپ بھی یہ کتاب پڑھیں تو سر دھنیں گے کیسے صرف ایک شخص سینکڑوں،ہزاروں بلکہ لاکھوں لوگوں کی زندگیوں میں امید کے رنگ گھول سکتا ہے۔کیسے تاریکی میں روشنی کی چنگاری پھوٹ سکتی ہے۔
خدا کے عاشق تو ہیں ہزاروں بنوں میں پھرتے ہیں مارے مارے
میں تو اس کا بندہ بنوں گا جسے خدا کے بندوں سے پیار ہوگا
ٓاخوت کے اس دیوتا سے زندگی بھر ملاقات تو نہ ہوئی کہ ان کے پیکر کو چھو کر محسوس کر سکتا کہ میں خواب نہیں بکہ حقیقت میں حیات ہوں مگر روح و قلب کی گہرائیوں تک اخوت کے اس سفر میں خود کو ان کا شریک سفر گردانتا ہوں روز آخر جب اذن ایزدی سے اس سفر اور مسافر کا تزکرہ ہو گا تو میرے یہ الفاظ بھی کسی ادنی باندی کی مانند ہاتھ باندھے کھڑے میری بخشش کے ملتج ہوں گے کہ ایسے سماجی ، معاشی او ر معاشرتی مسیحا ہی دراصل اس دھرتی کا بوجھ اٹھائے پھر رہے ہیں ۔