بانی پاکستان تحریک انصاف ( پی ٹی آئی ) عمران خان اور وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی کی سائفر کیس میں سزاؤں کے خلاف اپیلوں پر سماعت 6 مئی تک ملتوی ہوگئی۔
اسلام آباد ہائیکورٹ میں چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے سائفر کیس میں سزاؤں کے خلاف اپیلوں پر سماعت کی جس کے دوران وفاقی تحقیقاتی ایجنسی ( ایف آئی اے ) کے پراسیکیوٹر حامد شاہ عدالت میں پیش ہوئے اور دلائل دیئے۔
دوران سماعت ایف آئی اے پراسیکیوٹر حامد علی شاہ نےمؤقف اپنایا کہ سیکیورٹی آف سائفر گائیڈ لائنز کے مطابق دستاویز واپس نہ کرنا جرم ہے ، یہ امر تسلیم شدہ ہے کہ سائفر کی نو کاپیز میں سے صرف ایک وزیراعظم ہاؤس سے واپس نہیں آئی ، کیس کے گواہ اعظم خان نے قرآن پاک پر ہاتھ رکھ کر بیان دیا جسے ہلکا نہیں لیا جا سکتا ۔
عدالت نے ملزم کے 342 کے بیان پر وکیل کی عدم موجودگی کے اثرات پر پراسیکیوٹر سے معاونت طلب کر لی ۔
حامد علی شاہ نے بانی پی ٹی آئی کا ٹرائل کے دوران بطور ملزم اپنے دفاع میں ریکارڈ کرایا گیا بیان پڑھ کر سنایا جس پر عدالت نے استفسار کیا بانی پی ٹی آئی کا 342 کا بیان کیا وکیل کی عدم موجودگی میں ہوا؟ اگر ایسا ہے تو کیا ملزم کے دفاع کے بیان کی اہمیت کم ہو جائے گی ؟ اس نکتے پر تیاری کر کے آئیں اور عدالت کی معاونت کریں ۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیئے کہ وزیراعظم آفس میں تو روزانہ ایک ہزار چٹھیاں آتی ہوں گی ، اُن میں سے کوئی ایک آدھ مِس پلیس بھی ہو جاتی ہو گی جس پر ایف آئی اے پراسیکیوٹر نے کہا سائفر گائیڈلائنز میں یہ واضح ہے کہ دستاویز گم ہونے کی صورت میں مقدمہ درج ہو گا ، سائفر گم یا چوری ہوجائے تو وزارت خارجہ کے سکیورٹی افسر اور انٹیلی جنس بیورو کو آگاہ کرنا ہوتا ہے۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیئے کہ گائیڈلائنز کا کتابچہ سلمان صفدر کو بھی دے دیں جس پر پراسیکیوٹر نے جواب دیا میں تو پیش کر رہا ہوں لیکن انہوں نے نہیں لیا کیونکہ انہیں پتہ ہے کہ ان پر بھی پرچہ ہو جانا ہے ۔
چیف جسٹس نےکہا کیا ہم نے سائفر گائیڈلائنز کا کتابچہ واپس کر دیا ہے ؟ یہ نہ ہو ہمارے خلاف بھی ایف آئی آر ہو جائے جس پر پراسیکیوٹر نے کہا آپ نے کتابچہ واپس کر دیا ہے ۔
عدالت کے استفسار پر حامد علی شاہ نے بتایا انہیں اپنے دلائل مکمل کرنے میں مزید پانچ گھنٹے لگیں گے۔
بعدازاں، عدالت عالیہ نے اپیلوں پر مزید سماعت 6 مئی تک ملتوی کر دی ۔