تحریر : محمد اکرم چوہدری
دیکھیں لوگوں کو مختلف مذاہب بارے کوئی شک ہو گا مجھے بالکل نہیں ہے۔ بتوں کو پوجنے والے مسلمانوں کے دشمن ہیں۔ ان کی دشمنی کسی خطے یا علاقے تک محدود نہیں ہے بلکہ وہ جہاں کہیں بھی ہیں دنیا میں مسلمان جہاں کہیں بھی ہوں گے وہ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کا نعرہ لگانے والوں کی دشمنی کریں گے۔ اسی طرح یہود و نصاریٰ کا معاملہ ہے وہ بھی مسلمانوں کی دشمنی میں کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔ یہ فرق سمجھے بغیر مسلمانوں کے لیے مسائل کا حل ممکن نہیں ہو گا۔ ہاں علاقائی ضروریات، معاشرتی تقاضوں کو ضرور مدنظر رکھیں لیکن بڑے بڑے معاملات میں مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے حکمرانوں کی مسلم دشمنی کی تربیت و سوچ کو ملحوظ خاطر رکھنا ضروری ہے۔ اب بھارت کے موجودہ وزیراعظم نریندرا مودی کو دیکھ لیں وہ ہندوتوا سوچ کے حامل ہیں، ان کے توسیع پسندانہ عزائم اور مسلمانوں کو دیوار سے لگانے اور ختم کرنے کی سوچ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ جو کچھ نریندرا مودی نے بالخصوص گذشتہ چند برسوں میں کیا ہے وہ دنیا بھر کے مسلمان حکمرانوں کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی تھا لیکن اس دوران مسلم امہ کے حکمرانوں نے کشمیر کے مظلوم لاکھوں مسلمانوں کا ساتھ دینے کے بجائے اپنے اپنے مالی مفادات کو ترجیح دیتے ہوئے مظلوم کشمیری مسلمانوں کا ساتھ دینے کے بجائے خاموش رہنے میں عافیت سمجھی۔ اس دوران مسلمانوں کی گردنیں کٹتی رہیں، خواتین کی عزتیں پامال ہوتی رہیں، بچے شہید ہوتے رہے لیکن مسلم حکمران سوئے رہے۔ اس غفلت کا فائدہ اسرائیل کے ظالم حکمرانوں نے بھی اٹھایا اور وہ محض چند ماہ کے دوران ہی ہزاروں مسلمانوں کو شہید کر چکے ہیں۔ نیتن یاہو کو دیکھ کر ہی نریندرا مودی کی ہمت میں اضافہ ہوا ہے۔ اپنی انتخابی مہم میں متعصب ہندوؤں کے جذبات کو بھڑکانے اور بی جے پی کے ووٹرز کو مزید مضبوط کرنے کے لیے مسلمانوں کے خلاف تقریر کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ گذشتہ دنوں بھی نریندرا مودی نے یہی کام کیا ہے۔
بھارتی وزیراعظم نریندرا مودی نے بھارتی مسلمانوں کو گْھس بیٹھیے قرار دیا ہے۔ اگر سمجھا جائے تو بنیادی طور پر تو یہ دنیا بھر میں بسنے والے مسلمانوں کی تضحیک ہے۔ مودی ہمیشہ سے مسلمانوں کے مخالف رہے ہیں اور اس مرتبہ بھی وہ اپنی انتخابی مہم کی آڑ میں نفرت پھیلاتے ہوئے بھارت میں رہنے والے مسلمانوں کو درانداز قرار دے رہے ہیں۔ وہ مسلمان مخالف جذبات بھڑکا کر ووٹرز کو کانگریس سے دور کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ مودی کہتے ہیں کہ کانگریس اقتدار میں آئی تو یہ ملک کی دولت زیادہ بچوں والے گھس بیٹھیوں کو بانٹیں گے۔
بھارت میں 19اپریل کو ہونے والے انتخابات کے پہلے مرحلے میں اکیس ریاستوں کی ایک سو دو نشستوں کے لیے سولہ سو سے زائد امیدوار میدان میں تھے جبکہ پہلے مرحلے میں سولہ کروڑ تریسٹھ سے زیادہ ووٹر رجسٹرڈ تھے۔ انیس اپریل کو ہونے والے ان انتخابات میں لوک سبھا کی ایک سو دو نشستوں پر مجموعی ووٹر ٹرن آؤٹ 59.71 فیصد رہا۔
نریندرا مودی کا یہ بیان مسلم دنیا کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہے۔ بھارت کے موجودہ وزیراعظم کی یہ سوچ چیخ چیخ کر بیان کر رہی ہے کہ وہ اپنی انتخابی مہم مذہبی تقسیم کی بنیاد پر چلا رہے ہیں۔ ان کا ایجنڈا مذہبی تقسیم اور ہندوؤں کی برتری ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مسلم دنیا ویسے ہی سوچ رہی ہے جیسے اس کے دشمن سوچ رہے ہیں۔ یقینا نہیں مسلمان حکمران تو نریندرا مودی کو بڑے بڑے اعزازات سے نوازتے ہیں ان کی آو بھگت کرتے ہیں۔ کیا یہ اعزاز مسلمانوں کا خون بہانے کا بدلہ ہے۔ ہمیں شرم ہی نہیں آتی۔ اب نریندرا مودی کی طرف سے ان الفاظ کے بعد بھی کسی کو ہوش نہ آئے تو پھر اپنی باری کا انتظار کریں۔ اگر آج یہودی فلسطین کے مسلمانوں کو شہید کر رہے ہیں، ہندو کشمیر کے مسلمانوں کو شہید کر رہے ہیں تو یہ وقت کسی اور پر بھی آ سکتا ہے۔ یہ حالات پاکستان کے لیے بھی ایک سبق ہیں۔ پاکستان کو ایک خود مختار ملک کی حیثیت سے فلسطین و کشمیر کے مسلمانوں کے ساتھ ہر سطح پر یکجہتی کا اظہار کرنا چاہیے۔ فلسطین میں روزانہ درجنوں مسلمانوں کی شہادت ہو رہی ہے گذشتہ دنوں بھی اسرائیلی فوج کی جانب سے غزہ کے مظلوم شہریوں پر نصیرت اور رفح پر ہونے والے حملوں کے نتیجے میں پچپن فلسطینی شہید ہوئے۔ غزہ کے خان یونس شہر کے نصر میڈیکل کیمپ میں دریافت ہونے والی اجتماعی قبر سے مزید سو سے زائد افراد کی لاشیں نکال لی گئی ہیں جس کے بعد نصر میڈیکل کیمپ سے ملنے والی شہدا کی کل لاشوں کی تعداد دو سو تراسی ہو گئی ہے۔ افسوس ناک امر یہ ہے کہ روزانہ کی بنیاد پر سامنے آمنے والی یہ خبریں بھی مسلم حکمرانوں کو جگانے میں ناکام نظر آتی ہیں۔ کئی مہینوں سے فلسطینیوں پر مسلسل بمباری ہو رہی ہے، پانچ اگست دو ہزار انیس سے آج تک کشمیر کے لاکھوں مسلمانوں کے گھروں کو جیل میں بدل دیا گیا ہے لیکن ان دونوں مقامات پر ہونے والے ظلم کے خلاف کوئی عالمی ادارہ کچھ نہیں کر سکا یہاں تک کہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے تو فلسطین کے معاملے پر سرنڈر کر دیا ہے۔ اس سے بڑی ناانصافی اور کیا ہو سکتی ہے۔ یہاں لوگ جنگ بندی کا بھی مطالبہ کر رہے ہیں یہ بھی عارضی حل ہے کیونکہ یہودی حکمران کبھی مسلمانوں کو سکون سے بیٹھنے دیں گے نہ ہی وہ انہیں پھلتا پھولتا دیکھ سکتے ہیں۔ وہ ہر وقت ہر انداز سے مسلمانوں کی مخالفت اور مسلمانوں کو تکلیف پہنچانے کی کوششوں میں مصروف رہیں گے۔ ہزاروں افراد کی شہادت کے بعد جنگ بندی کا کیا جواز ہے ، ان ہزاروں افراد کی قیمتی جانوں کا حساب کون دے گا، بچوں کی شہادت کا حساب کون دے گا، اس سے اہم بات یہ حساب کون لے گا، دنیا بھر میں مسلمان بچوں کے ذہنوں پر اس جنگ کے جو اثرات مرتب ہوئے ہیں اس کا ذمہ دار کون ہے۔ اسرائیل نے اس ظلم کے ذریعے مسلمان بچوں کو تو یہ سبق دیا ہے کہ تمہارے بڑے اس قابل نہیں کہ وہ اپنے بچوں کی حفاظت کر سکیں۔ دہائیوں سے ہندو، یہودی اور عیسائی یہی سبق دنیا کے مختلف ممالک میں مسلمانوں کو دے رہے ہیں۔ کاش کہ مسلم امہ کے حکمران بھی اپنے ذاتی مفادات اور آسائشوں کے بجائے قرآن و سنت کے مطابق ایسے معاملات پر حکمت عملی ترتیب دیتے اور مسلمان بچوں، خواتین، نوجوانوں اور بزرگوں پر ظلم کرنے والے سے حساب لیتے۔ کاش وہ وقت آئے اور میں اپنی آنکھوں سے وہ مناظر دیکھ سکوں۔
آخر میں علامہ محمد اقبال کا کلام
خودی کا سِرِّ نہاں لَا اِلٰہَ اِلّاَ اللہ
خودی ہے تیغ، فَساں لَا اِلٰہَ اِلّاَ اللہ
یہ دَور اپنے براہیم کی تلاش میں ہے
صنم کدہ ہے جہاں، لَا اِلٰہَ اِلّاَ اللہ
کِیا ہے تْو نے متاعِ غرور کا سودا
فریب سْود و زیاں، لَا اِلٰہَ اِلّاَ اللہ
یہ مال و دولتِ دنیا، یہ رشتہ و پیوند
بْتانِ وہم و گْماں، لَا اِلٰہَ اِلّاَ اللہ
خرد ہوئی ہے زمان و مکاں کی زنّاری
نہ ہے زماں نہ مکاں، لَا اِلٰہَ اِلّاَ اللہ
یہ نغمہ فصلِ گْل و لالہ کا نہیں پابند
بہار ہو کہ خزاں، لَا اِلٰہَ اِلّاَ اللہ
اگرچہ بْت ہیں جماعت کی آستینوں میں
مجھے ہے حْکمِ اذاں، لَا اِلٰہَ اِلّاَ اللہ