تحریر : محمد اکرم چوہدری
ایران کے صدر ابراہیم رئیسی پاکستان کے دورے پر ہیں۔ دنیا کے حالات کو دیکھتے ہوئے اور ممکنہ طور پر ایک عالمی جنگ کی منظر کشی کی جائے تو ایرانی صدر کا دورہ پاکستان بہت اہمیت رکھتا ہے۔ وہ بھی ان حالات میں کہ جب ماضی قریب میں ایران اور پاکستان کے سفارتی تعلقات میں مختصر وقت کے لیے ہی سہی لیکن بہت تناو آیا، دونوں ملکوں کی فوجیں بارڈر پر آئیں، سفارتی تعلقات کشیدہ ہوئے لیکن پھر حالات معمول پر آ گئے۔ اس کے بعد اسرائیل کی ظالم افواج نے فلسطینیوں کا قتل عام اور نسل کشی کا سلسلہ شروع کیا ہے۔ گذرے کئی ماہ کے دوران اسرائیل کے مظالم کا سامنا کرتے ہوئے ہزاروں فلسطینیوں نے جام شہادت نوش کیا ہے، ظالم اسرائیلی فوج معصوم بچوں کو بھی نشانہ بنا رہی ہے۔ ہزاروں معصوم بچے بھی اسرائیل کی ظالم فوج کا نشانہ بن چکے ہیں۔ ایران کا موقف اسرائیل کے معاملے میں دیگر ممالک سے ناصرف بہت مختلف ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ ایران اعلانیہ طور پر بھی فلسطین کی ہر لحاظ سے مدد کر رہا ہے۔ ایران کو عالمی پابندیوں کا بھی سامنا ہے۔ گذشتہ کئی برسوں سے پاکستان اور ایران کے مابین توانائی بحران کو حل کرنے کے لیے گیس پائپ لائن کا منصوبہ بھی التوا کا شکار ہے۔ اس منصوبے کو دیکھا جائے تو ایران گیس پائپ لائن کے حوالے سے اپنے حصے کا سارا کام کر چکا ہے۔ پاکستان اگر اپنے حصے کی گیس پائپ لائن تعمیر نہیں کرتا تو پھر ناصرف ہم سستی گیس سے محروم رہیں گے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ اربوں ڈالرز کا جرمانہ بھی ادا کرنا پڑے گا۔ جی سیون ممالک نے بھی ایران کو پابندیوں کی دھمکی دی ہے۔ اس پس منظر کو دیکھا جائے تو اس وقت ایرانی صدر کا پاکستان آنا واقعی بہت اہمیت رکھتا ہے۔ ایران اور سعودی عرب کے مابین بھی تعلقات بحال ہو رہے ہیں۔ فلسطین میں اسرائیل کے بڑھتے ہوئے مظالم کو روکنے کے لیے امت مسلمہ کو متحد ہونا پڑے گا اور مسلم امہ کو فلسطین، کشمیر اور دنیا میں ہر اس جگہ جہاں مسلمانوں پر ظلم ہو رہا ہے متحد ہو کر جواب دینا پڑے گا۔ ایران کے صدر ابراہیم رئیسی پاکستان کے دورے پر ہیں دونوں ممالک نے مختلف شعبوں میں تعاون کی مفاہمتی یادداشتوں پر دستخط کیے ہیں۔ جوائنٹ اکنامک فری زون پر توثیق جب کہ سویلین معاملات میں عدالتی امور پر ایم او یو،سکیورٹی تعاون کے سمجھوتے، ویٹرنری اور حیوانات کی صحت سے متعلق معاہدوں پر بھی دستخط ہوئے ہیں۔ ان معاہدوں اور ایران کے صدر ابراہیم رئیسی کے دورہ پاکستان سے دنیا کے کئی اہم ممالک کو بہت تکلیف پہنچے گی۔ پاکستان کو اس دورے کے بعد پیدا ہونے والے حالات، مخالفت اور ردعمل کیلیے تیار رہنا چاہیے۔ پاکستان اور ایران نے تجارتی حجم دس ارب ڈالر تک بڑھانے پر بھی اتفاق کیا ہے۔ وزیراعظم پاکستان میاں محمد شہباز شریف کہتے ہیں کہ "ایران اور پاکستان کے تعلقات بہت مضبوط ہیں ایران نے سب سے پہلے پاکستان کو تسلیم کیا تھا۔" ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کے مطابق "غزہ میں نسل کشی ہو رہی ہے، غزہ میں سلامتی کونسل غزہ کے معاملے پر ذمہ داریاں ادا نہیں کر رہی۔ دوست اور ہمسایہ ملک پاکستان کے ساتھ تاریخی تعلقات ہیں، پاکستان ایران کے تعلقات کو کوئی منقطع نہیں کر سکتا۔ آج ہم نے پاک ایران اقتصادی، تجارتی، ثقافتی تعلقات کو بڑھانے کا عزم کیا، دوست ملکوں میں باہمی تعلقات کو مزید مضبوط کریں گے۔
اس دورے کا ایک اہم پہلو دونوں ملکوں کے مابین تجارتی تعلقات اور بندر گاہوں کا استعمال ہے۔ یاد رہے دونوں ملکوں کے درمیان تین تجارتی گزرگاہیں ہیں، تفتان کے بعد رمدان گبد سرحدی گزرگاہ کا افتتاح چار برس پہلے اپریل میں کیا گیا تھا۔ یہ کراسنگ اس لحاظ سے اہم ہے کہ ایرانی بندرگاہ چاہ بہار سے ایک سو بیس کلومیٹر اور پاکستان کی طرف سے گوادر صرف ستر کلومیٹر دور ہے۔ تیسری بندرگاہ مند پشین کا افتتاح سن دو ہزار اکیس میں کیا گیا تھا۔ یہ راستہ بھی کھولنے کا وقت آن پہنچا ہے۔ ایران پاکستان کو بجلی کی فراہمی بھی کرنا چاہتا ہے اس بجلی کی خاص بات یہ ہے کہ پاکستان کو ادائیگی ڈالرز میں نہیں کرنا پڑتی۔ گذشتہ دور میں میاں شہباز شریف نے ایران کے ساتھ سو میگا واٹ بجلی کی ٹرانسمیشن لائن کا افتتاح کیا تھا۔ ایرانی صدر کے دورہ پاکستان میں گیس پائپ لائن منصوبے پر پیشرفت سب سے اہم ہے۔ پاکستان کو توانائی کے بدترین بحران کا سامنا ہے ایران کے ساتھ بہتر تجارتی تعلقات اور توانائی کے بحران سے نکلنے کے لیے ایسے منصوبے پاکستان کی مشکلات کم کر سکتے ہیں۔ ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کو پاکستان میں بہت پرجوش انداز میں خوش آمدید کہا گیا ہے صدر پاکستان آصف علی زرداری، وزیراعظم میاں محمد شہباز شریف، چیئرمین سینیٹ، سپیکر قومی اسمبلی سمیت ہر سطح پر دوست ہمسایہ ممالک کے صدر ابراہیم رئیسی کے اس دورے کے حوالے سے خوشی محسوس کی جا سکتی ہے۔ مسلم امہ کو متحد کرنے کے لیے مسلم ممالک کو آپس میں تجارتی تعلقات کو مضبوط بنانا ہو گا۔ ڈالر کے اثر سے نکلنے کے لیے بھی اقدامات کرنا ہوں گے۔ بنکنگ ماڈلز پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ایران پاکستان گیس پائپ لائن کا سب سے بڑا مخالف امریکہ ہے۔ پاکستان کو اس حوالے سے ٹھوس اقدامات کی ضرورت ہے کیونکہ ماضی قریب میں دیکھا گیا ہے کہ امریکہ کے روکنے پر بھی بھارت نے روس سے تجارتی تعلقات ختم نہیں کیے تھے اور بھارت نے روس سے گیس کی خریداری میں اضافہ کر لیا تھا۔ امریکہ کو پاکستان کے لگ بھگ پچیس کروڑ انسانوں کے بہتر مستقبل کا سوال ہے۔ حکومت پاکستان کو کروڑوں لوگوں کے بہتر مستقبل اور ہمسایہ ممالک کے ساتھ بہتر تعلقات کی خاطر عالمی قوانین اور تجارتی مثالوں اور مختلف ملکوں کے باہمی تعلقات کو ضرور نام نہاد مہذب دنیا کے سامنے رکھنا چاہیے۔ پاکستان میں اپوزیشن جماعتوں کو بھی ملکی مشکلات کو مدنظر رکھتے ہوئے سیاسی سرگرمیوں کو ترتیب دینے کی ضرورت ہے۔ کسی کی بھی سیاست پاکستان کے بہتر مستقبل سے زیادہ اہم نہیں ہے۔ سیاسی قیادت کو اپنے چھوٹے چھوٹے سیاسی فوائد کے بجائے ملکی مفادات کو ترجیح دینا ہو گی۔
آخر میں ن میم راشد کا کلام
زندگی سے ڈرتے ہو؟
‘زندگی تو تم بھی ہو‘ زندگی تو ہم بھی ہیں
آدمی سے ڈرتے ہو؟
آدمی تو تم بھی ہو، آدمی تو ہم بھی ہیں
آدمی زبان بھی ہے، آدمی بیاں بھی ہے
اس سے تم نہیں ڈرتے!
حروف اور معنی کے رشتہِ ہائے آہن سے
آدمی ہے وابستہ
آدمی کے دامن سے زندگی ہے وابستہ
اس سے تم نہیں ڈرتے!
اِن کہی‘سے ڈرتے ہو‘
جو ابھی نہیں آئی، اْس گھڑی سے ڈرتے ہو
اس گھڑی کی آمد کی آگہی سے ڈرتے ہو
پہلے بھی تو گزرے ہیں
دور نارسائی کے، بے ریا خدائی کے
پھر بھی یہ سمجھتے ہو، ہیچ آرزومندی
یہ شبِ زباں بندی ہے رہِ خداوندی
تم مگر یہ کیا جانو
لب اگر نہیں ہلتے، ہاتھ جاگ اٹھتے ہیں
ہاتھ جاگ اٹھتے ہیں، راہ کا نشاں بن کر
نور کی زباں بن کر
ہاتھ بول اٹھتے ہیں، صبح کی اذاں بن کر
روشنی سے ڈرتے ہو؟
روشنی تو تم بھی ہو، روشنی تو ہم بھی ہیں
روشنی سے ڈرتے ہو
شہر کی فصیلوں پر
دیو کا جو سایا تھا پاک ہو گیا آخر
رات کا لبادہ بھی
چاک ہو گیا آخر، خاک ہو گیا آخر
رات کا لبادہ بھی
اڑدھامِ انساں سے فرد کی نوا آئی
ذات کی صدا آئی
راہِ شوق میں جیسے راہرو کا خوں لپکے
اک نیا جنوں لپکے
آدمی چھلک اٹھے
آدمی ہنسے۔۔۔
دیکھو، شھر پھر بسے۔۔۔ دیکھو
تم ابھی سے ڈرتے ہو؟