تحریر : محمد اکرم چوہدری
80 ء کی دہائی کو پاکستان میں ڈرامہ انڈسٹری اور میوزک کے حوالے سے بہترین دہائی کہا جا سکتا ہے۔ وہ بھی اس کے باوجود کہ سرکاری ٹی وی کو 80 ء کی دہائی میں مختلف حوالوں سے شدید پابندیوں کا سامنا تھا۔ یہ وہ دور تھا جس میں خواتین کو آگے بڑھنے اور معاشرے میں متحرک کردار ادا کرنے کے حوالے خاصی پابندیوں کا سامنا تھا۔ بالخصوص اس وجہ سے بین الاقوامی سطح پر پاکستان کا تشخص بری طرح سے متاثر ہو رہا تھا۔ پاکستان کو تنگ نظر ملک کی حیثیت سے دیکھا جانے لگا تھا۔ مگر1980 کے شروعات میں ایک پاکستانی آواز نے پوری دنیا میں تہلکہ مچا دیا۔ یہ آواز تھی اس وقت پندرہ سالہ نازیہ حسن کی۔ نازیہ حسن نے ایک گانے سے پوری دنیا میں ایسا نام بنا یا کہ آج تک لوگ اس کو نہیں بھول پائے ہیں۔ 13پریل 1965کو دنیا میں آنے والی نازیہ حسن کے بارے میں شاید کسی کو گمان بھی نہ ہو گا کہ آنے والے دور میں نازیہ حسن سینکٹروں خواتین کے لیے رول ماڈل ہونگی۔ نازیہ حسن کے انٹرویوز کو دیکھا جائے تو ہمیشہ نازیہ نے اپنے ملک اور معاشرتی اقدار کو مد نظر رکھ کر پاکستان کی نمائندگی کی۔ برطانیہ میں پرورش پانے کے باوجود نازیہ حسن کا اپنے وطن سے بہت گہرا تعلق تھا۔
نازیہ حسن نے اپنے بھائی زوہیب حسن کے ساتھ برصغیر میں پاپ موسیقی کی بنیاد رکھی۔ حیران کن طور نازیہ اور زوہیب کے گائے ہوئے گیت دنیا بھر میں مقبول ہوئے۔ نازیہ حسن کو بھارت میں فلمی دنیا کے سب سے بڑے ایوارڈ فلم فیئر ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔ پہلی البم کی کامیابی پر نازیہ اور زوہیب کو روس میں ڈبل پلاٹینیم ڈسکس دی گئیں۔ نازیہ حسن کے گیت خاص طور پر ڈسکو ڈیوانے اور بوم بوم میکسیکو ، پیرو اور سپین میں بے حد مقبول ہوئے۔ یہی وجہ ہے کہ اگر یوٹیوب پر نازیہ حسن کی ویڈیوز کے نیچے کمنٹس پڑے جائیں تو ایک بڑی تعداد ہسپانوی فینز کی ملے گی۔ یہ وہ دور تھا جب سوشل میڈیا کا نام و نشان نہیں تھا۔ ٹیلیویژن بھی بہت زیادہ نہیں ہوتے تھے لیکن اس کے باوجود نازیہ و زوہیب پوری دنیا میں پاکستان کے بارے میں منفی رائے کی نفی کر رہے تھے۔ نازیہ حسن کی میوزک ویڈیو ڈریمر دیوانے ایم ٹی وی پر نشر کی جانے والی پہلی ایشین ویڈیو تھی۔ نازیہ حسن اور زوہیب حسن وہ پاکستانی آرٹسٹس ہیں جن کو پولی گرام اور سی بی ایس جیسی بین الاقوامی میوزک لیبلز نے سائن کیا اور دونوں بہن بھائیوں نے اپنے انگلش میں گائے گیتوں کی بدولت برٹش چارٹس پر حکمرانی کی۔
نازیہ حسن نے لندن یونیورسٹی سے بزنس لاء میں ڈگری حاصل کی۔ نازیہ حسن نے اقوام متحدہ میں پولیٹیکل اینالسٹ کی حیثیت سے بھی خدمات سرانجام دیں۔ یہ وہ دور تھا جب نازیہ موسیقی کو خیر با د کہہ چکی تھیں۔ اسی دور میں نیویارک کی فلائٹ کے دوران نازیہ حسن کی ملاقات محترمہ بے نظیر بھٹو سے ہوئی جو نازیہ حسن کی خدمات اور صلاحیتوں کی معترف تھیں۔ محترمہ کی اپنے دوسرے دور حکومت میں خواہش تھی کہ نازیہ حسن حکومت کا حصہ بنیں اور کوئی اہم وزارت سنبھالتے ہوئے پاکستان پیپلز پارٹی کی طرف سے سیاست میں شمولیت اختیار کریں اور سیاسی کیریئر کا آغاز کریں۔نازیہ حسن کو سیاست میں دلچسپی نہ تھی بلکہ نازیہ جاوید جبار کے ساتھ مل کر تھر میں بچوں کیلئے فلاحی کاموں میں مصروف تھیں۔ نازیہ حسن نے لیاری میں موبائل ہسپتال بھی قائم کیے۔ موسیقی کے آخری دنوں میں نازیہ حسن نے زوہیب حسن کے ساتھ مل کر نشے کے خلاف مہم کا آغاز کیا۔ مگر نازیہ حسن کے کینسر جیسے موذی مرض میں مبتلا ہونے سے یہ سلسلہ رک گیا۔ انہیں کینسر سے عارضی طور پر صحت تو ملی مگر نازیہ حسن کی ذاتی زندگی تنازعات کا شکار ہو گئی اور وہ دل میں ڈھیروں خواب سموئے پینتیس سال کی عمر میں جہان فانی سے رخصت ہو گئیں۔ نازیہ کو پاکستان کی لیڈی ڈیانا بھی کہا جاتا ہے جب کہ بھارت میں نازیہ کو گولڈن گرل کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
نازیہ حسن اور ذوہیب حسن کی کامیابی کی معترف پوری دنیا ہوئی۔ مگر پاکستان میں جیسا کہ ہم اپنے سب فنکاروں کے ساتھ کرتے ہیں ویسا ہی کیا گیا۔ نازیہ کو 2003میں بعد از مرگ پرائیڈ آف پرفارمنس دیا گیا۔ جبکہ زوہیب حسن کی خدمات کو حکمرانوں کی طرف سے مکمل طور پر نظر انداز کیا گیا ہے۔نازیہ حسن کی پاکستان کے لیے خدمات کو دیکھا جائے تو یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ انہیں صرف ایک پرائیڈ آف پرفارمنس ڈیزرو نہیں کرتیں۔ جہاں نازیہ حسن کو رچمنڈ کالج لندن کی جانب سے پی ایچ ڈی کی اعزازی ڈگری سے بھی نوازا گیا وہاں پاکستان میں سول ایوارڈز کی لوٹ سیل تو لگی ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ وہ لوگ جنہوں نے برسوں ملک کی خدمت کرتے ہوئے گذارے آج بھی انہیں نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ ایوارڈز تقسیم کرنے کی لوٹ سیل لگی ہوئی ہے شاید یہی وجہ ہے کہ اصل میں پرفارم کرنے والوں کی طرف کسی کی توجہ ہی نہیں ہے۔ وہ فنکار جنہوں نے بین الاقوامی سطح پر ملک کا نام روشن کیا ہے وہ کسی کو نظر نہیں آ رہے۔ چونکہ ایوارڈز دئیے جانے کا معیار بھی گرا ہے اور بھرپور کام کرنے کے باوجود آج بھی ایوارڈز کسی کے کہنے اور کسی کے یاد رکھنے سے جڑے ہوئے ہیں یہی وجہ ہے کہ ایوارڈز کے کئی اصل حقدار محروم ہیں۔ نازیہ اور ذوہیب دونوں کو اعلیٰ ترین سول ایوارڈ سے نوازنا چاہیے۔ یہ وہ دو چہرے ہیں جنہوں نے دنیا بھر میں پاکستان کا نام روشن کیا ہے۔ آج نازیہ حسن کی سالگرہ ہے آج ہو سکتا ہے گوگل اپنا ڈوڈل بدل دے، ٹیلیویژن چینلز پر ان کی سالگرہ کی خبریں نشر اور اخبارات میں شائع ہوں گی ہو سکتا ہے حکومت میں سے کسی کو یاد آئے اور کسی کے پاس اتنا وقت ہو کہ وہ اس اہم معاملے پر بھی سوچے ۔
آخر میں عدیم ہاشمی کا کلام
مفاہمت نہ سکھا جبر ناروا سے مجھے
میں سر بکف ہوں لڑا دے کسی بلا سے مجھے
زباں نے جسم کا کچھ زہر تو اگل ڈالا
بہت سکون ملا تلخی نواء سے مجھے
رچا ہوا ہے بدن میں ابھی سرور گناہ
ابھی تو خوف نہیں آئے گا سزا سے مجھے
میں خاک سے ہوں مجھے خاک جذب کر لے گی
اگرچہ سانس ملے عمر بھر ہوا سے مجھے
غذا اسی میں مری میں اسی زمیں کی غذا
صدا پھر آتی ہے کیوں پردہ خلا سے مجھے
میں جی رہا ہوں ابھی اے زمین آدم خور
ابھی تو دیکھ نہ تو اتنی اشتہا سے مجھے
بکھر چکا ہوں میں اب مجھ کو مجتمع کر لے
تو اب سمیٹ بھی اپنی کسی صدا سے مجھے
میں مر رہا ہوں پھر آئے صدائے کن فیکوں
بنایا جائے مٹا کے پھر ابتدا سے مجھے
میں سر بہ سجدہ ہوں اے شمرمجھ کو قتل بھی کر
رہائی دے بھی اب اس عہد کربلا سے مجھے
میں کچھ نہیں ہوں تو پھر کیوں مجھے بنایا گیا
یہ پوچھنے کی اجازت تو ہو خدا سے مجھے
میں ریزہ ریزہ بدن کا اٹھا رہا ہوں عدیم
وہ توڑ ہی تو گیا اپنی التجا سے مجھے