تحریر : محمد اکرم چوہدری
وفاقی وزیر برائے سمندر پار پاکستانی چوہدری سالک بشام خود کش حملے میں ہلاک ہونے والے چینی انجینئرز کی میتیں لیکر چین پہنچے ہیں۔ چینی انجینئرز کی میتیں پاکستان ائیرفورس کے طیارے سے چین کے شہر ووہان منتقل کی گئیں۔ اس سے قبل بشام خودکش حملے میں ہلاک پانچ چینی انجینئرز کے لیے نورخان ائیربیس پرپھول رکھنے کی تقریب میں صدر پاکستان آصف علی زرداری، وزیراعظم میاں محمد شہباز شریف اور عسکری قیادت کی جانب سے پھول رکھے گئے۔ اس موقع پر تیس سیکنڈز کی خاموشی بھی اختیار کی گئی۔ یاد رہے کہ گزشتہ دنوں بشام میں گاڑی پر ہونے والے خودکش حملے میں پانچ چینی انجینیئرز سمیت چھ افراد ہلاک ہوئے تھے۔ اس افسوسناک واقعے کی تحقیقات کیلئے وزیراعظم میاں شہباز شریف کی ہدایت پر جوائنٹ کمیٹی تشکیل دی جا چکی ہے۔ بشام میں چینی انجینئرز پر حملہ درحقیقت پاکستان کی سیاسی قیادت کے لیے ایک لمحہ فکریہ ہے ۔ اس حملے کی تحقیقات میں یقینا ذمہ داران کی نشاندہی بھی ہو گی اور انہیں کیفر کردار تک بھی پہنچایا جائے گا لیکن اس واقعے کو پاکستان میں چینی سرمایہ کاری اور دیگر اہم منصوبوں کے تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے، اس منصوبے کو پاکستان اور چین کی دیرینہ دوستی کے پس منظر کو سامنے رکھتے ہوئے بھی دیکھنے کی ضرورت ہے۔ دشمن نہیں چاہتا کہ پاکستان میں استحکام ہو، دشمن نہیں چاہتا کہ پاکستان ترقی کرے، دشمن نہیں چاہتا کہ پاکستان میں ترقیاتی منصوبے پایہ تکمیل تک پہنچیں، دشمن نہیں چاہتا کہ پاکستان میں امن و امان ہو، پاکستان میں سکون ہو اور بیرونی دنیا سے یہاں کام کرنے والے ہماری ترقی میں اپنا کردار ادا کریں۔ بشام میں چینی انجینئرز کو نشانہ بنانا ایک خاص سوچ کا نتیجہ ہے۔ یہ دشمن وہی ہے جس نے آج تک پاکستان کے وجود کو تسلیم نہیں کیا۔ چینی انجینئرز کو نشانہ بنانے کا مطلب پاکستان میں امن عمل کو نشانہ بنانا ہے، چینی انجینئرز کو نشانہ بنانے کا مطلب پاکستان میں تعمیر و ترقی کے عمل کو نشانہ بنانا ہے۔ چینی انجینئرز پر حملہ پاکستان میں سرمایہ کاری پر حملہ ہے۔ اس حملے سے دہشتگردوں نے یہ پیغام دیا ہے کہ وہ پاکستان کے دوستوں کو بھی نشانہ بنائیں گے۔ گوکہ یہ سخت الفاظ ہیں لیکن یہی حقیقت ہے۔ کیا اب بھی وقت نہیں آیا کہ سیاسی قیادت ان حالات میں متحد ہو کر ملکی مسائل حل کرنے کی طرف توجہ دے ۔ ملک میں موجود سیاسی عدم استحکام، سیاسی تقسیم اور سیاسی انتشار دشمن کا وار کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ بشام واقعہ گوکہ پاکستان میں دہشت گردی کا پہلا واقعہ تو نہیں ہے اس سے پہلے بھی ایسا ہوتا رہا ہے اس لیے ہمیں سوچنا یہی ہے کہ کیا ہم آج بھی متحد نہیں ہو سکتے۔ مطلب کیا ہمارے سیاسی نظریات ملک کے مستقبل سے بھی زیادہ اہم ہیں، کیا ہمارے لیے سیاسی مفادات ملکی مفاد سے بڑھ کر ہیں۔ قومی اسمبلی اور ملک کی چاروں صوبائی اسمبلیوں میں کسی کو یہ فکر ہے کہ دشمن کے لیے ہمارے اندر کوئی تقسیم نہیں وہ سب کو پاکستانی سمجھ کر ہی نشانہ بناتا ہے، دشمن ہماری شناخت کو نشانہ بنا رہا ہے اور ہمیں اپنی اپنی سیاسی شناخت کو بچانے اور مخالفین کی سیاسی شناخت کو ختم کرنے کی کوششوں اور سازشوں میں مصروف ہیں۔ کوئی ہے جو اس سوچ کو سمجھے کوئی ہے جو اس انداز سے آواز بلند کرے کہ اللہ کے واسطے اس ملک کو بچانے کے لیے ایک ہو جائو، اس ملک کے بہتر مستقبل کی خاطر ایک ہو جائو، اس ملک کے بچوں کے بہتر مستقبل کی خاطر ذاتی انا کو قربان کر دو۔ یہ کام ہمارے سیاستدانوں نے ماضی میں نہیں کیا اور مستقبل قریب میں بھی اس کا امکان نہیں ہے۔ یہ آپس میں لڑتے رہے ہیں، لڑ رہے ہیں اور لڑتے ہی رہیں گے لیکن کبھی ملک کی خاطر ایک نہیں ہوتے۔ جو حکومت میں ہوتا ہے اس کے لیے ایسے واقعات تکلیف دہ ہوتے ہیں لیکن جو حکومت میں نہیں ہوتا اس کے لیے ایسے واقعات تنقید کا مواد فراہم کرتے ہیں۔ وزیراعظم میاں شہباز شریف نے داسو کا دورہ بھی کیا ہے انہوں نے اپنے دورے میں چینی انجینئرز سے خطاب بھی کیا ہے میں نے وہاں موجود غیر ملکیوں کے چہروں پر کرب کو محسوس کیا ہے۔ اگر سوچا جائے تو یہ معمولی بات نہیں کہ کسی غیر ملکی کو پاکستان میں نشانہ بنایا جائے اور اس کے ساتھی خاموشی سے دیکھتے رہیں۔ غیرت مند اقوام کے لیے ایسے واقعات پر خاموش رہنا ممکن نہیں ہوتا۔ دل پر پتھر رکھ چینی انجینئرز وہاں بیٹھے ہیں۔ اب یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ملک میں امن و امان کے حالات کو بہتر بنائیں اور پاکستان کے دشمنوں کو منطقی انجام تک پہنچائیں۔
چند روز گذرے ہیں این ایف سی ایوارڈ پر لکھا تھا آج اسی حوالے سے ایک خبر قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ رواں مالی سال فاٹا اخراجات میں تیس ارب روپے کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ فاٹا کیلئے بجٹ میں رقم چھیاسٹھ ارب مختص کی گئی تھی لیکن اخراجات تیس ارب بڑھ کر 96 ارب روپے ہو گئے ہیں جس کو مد نظر رکھتے ہوئے کے پی حکومت نے آئندہ بجٹ میں فاٹاکیلئے 100 ارب روپے مختص کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ کے پی حکومت نے وزیراعظم، وزارت خزانہ، ایف بی آر اور وزارت توانائی کو ادائیگیوں کیلئے خط لکھ دیا ہے تاہم وزارت خزانہ نے رقم فوری ادا کرنے سے منع کردیا ہے۔ خیبرپختونخوا کو نیٹ ہائیڈل، این ایف سی ایوارڈ، فاٹا اخراجات اور دیگر ادائیگیوں میں تاخیر کا سامنا ہے۔ صوبوں کو این ایف سی ایوارڈ صرف اس وقت یاد آتا ہے جب فنڈز کی ضرورت ہوتی ہے کیا آمدن اور اخراجات میں توازن قائم رکھنا کسی کی ذمہ داری نہیں ہے۔ یہ سب مسائل سیاسی قیادت کے بروقت اور بہتر فیصلے نہ کرنے کی وجہ سے ہیں۔ جب تک ہم مصلحتوں سے آزاد نہیں ہوں گے اور ملکی مفادات کے پیش نظر کام نہیں کریں گے اس وقت تک مسائل کا حل ممکن نہیں۔ ٹکریں ضرور ماریں گے لیکن کوئی ڈھنگ کا کام نہیں کر پائیں گے۔
آخر میں مظفر وارثی کی لکھی ہوئی حمد
کوئی تو ہے جو نظامِ ہستی چلا رہا ہے ، وہی خدا ہے
دکھائی بھی جو نہ دے ، نظر بھی جو آرہا ہے وہی خدا ہے
تلاش اْس کو نہ کر بتوں میں ، وہ ہے بدلتی ہوئی رْتوں میں
جو دن کو رات اور رات کو دن بنا رہا ہے ، وہی خدا ہے
وہی ہے مشرق وہی ہے مغرب ، سفر کریں سب اْسی کی جانب
ہر آئینے میں جو عکس اپنا دکھا رہا ہے ، وہی خدا ہے
کسی کو سوچوں نے کب سراہا ، وہی ہوا جو خدا نے چاہا
جو اختیارِ بشر پہ پہرے بٹھا رہا ہے ، وہی خدا ہے
نظر بھی رکھے ،سماعتیں بھی ، وہ جان لیتا ہے نیتیں بھی
جو خانہء لاشعور میں جگمگا رہا ہے ، وہی خدا ہے
کسی کو تاجِ وقار بخشے ، کسی کو ذلت کے غار بخشے
جو سب کے ماتھے پہ مہرِ قدرت لگا رہا ہے ، وہی خدا ہے
سفید اْس کا سیاہ اْس کا ، نفس نفس ہے گواہ اْس کا
جو شعلہء جاں جلا رہا ہے ، بْجھا رہا ہے ، وہی خدا ہے