تحریر : محمد اکرم چوہدری
سابق چیئرمین ایف بی آر شبر زیدی کہتے ہیں کہ "ہمیں نیشنل فنانس کمیشن (این ایف سی) ایوارڈ کے سسٹم کو دوبارہ دیکھنا پڑے گا۔" شبر زیدی عمران خان کے دور حکومت میں ایف بی آر کے چیئرمین بنے لیکن وہ آج بھی پاکستان کے بنیادی مسائل کے حوالے سے ایسی گفتگو ضرور کرتے ہیں جو بنیادی طور پر سیاست دانوں کو کرنی چاہیے۔ بدقسمتی سے سیاسی قیادت کے اپنے مسائل ہیں۔ سیاسی قیادت مصلحتوں کا شکار ہے اور مرکز کو طاقتور بنانے کے فارمولے پر کوئی بات کرنے کے لیے تیار نہیں ہے ان حالات میں شبر زیدی یا اس ملک کے لیے تعمیری سوچ اور معاشی اصلاحات کا خیال پیش کرنے والے افراد سیاسی قیادت کو مختلف اہم معاملات پر آگے بڑھنے کا پیغام ضرور دے رہے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ سیاسی قیادت اس حوالے سے کیا حکمت عملی اختیار کرتی ہے۔ صوبے این ایف سی ایوارڈ کا شور تو بہت مچاتے ہیں لیکن کیا کسی نے دیکھا ہے کہ گذشتہ چند برسوں کے دوران وفاق کو کن مسائل کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ آج بھی وفاق کمزور ہے، صوبوں کی بدانتظامی اس حد تک ہے کہ وہاں کوئی اچھی چیز نظر ہی نہیں آتی البتہ صوبوں سے یہ آوازیں ضرور آتی ہیں کہ وفاق ہمارا حق نہیں دے رہا، وفاق ہمارا مقروض ہے، ہر صوبہ کئی کئی سو ارب کا دعوے دار ہے لیکن کوئی یہ نہیں بتاتا کہ وفاق نے پیسے کہاں سے لینے ہیں۔ کیا صوبے آمدن کے معاملے میں وفاق کا ساتھ دیتے ہیں، کیا صوبے اپنی آمدن بڑھانے کے لیے کام کرتے ہیں، کیا صوبوں میں ایسی انتظامی صلاحیتیں پائی جاتی ہیں کہ وہ وفاق کا بوجھ کم کر سکیں۔ آج تعلیم اور صحت کے شعبے کی جو حالت ہو چکی ہے کیا اس کے ذمہ دار صوبے نہیں ہیں، کیوں گذشتہ چند برسوں کے دوران ملک میں غیر سرکاری تعلیمی اداروں اور ہسپتالوں کی تعداد میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے؟ کیوں ملک میں تعلیم اور صحت کے شعبے زوال پذیر ہیں، کیوں تعلیم میں تحقیق کا پہلو ہر گزرتے دن کے ساتھ کم ہوتا جا رہا ہے۔ پاکستان میں سیاسی قیادت کو اس وقت اٹھارویں ترمیم اور این ایف سی ایوارڈ کے معاملے پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔ کیونکہ ہر وہ چیز جو وفاق کو کمزور کرے اور ہم اس پر ڈٹے رہیں یہ ملک کے مستقبل کو خطرے میں ڈالنے والی بات ہے۔ دوسرے لفظوں میں ہر وقت خطرات سے کھیلنے کے مترادف ہے۔ بالخصوص کہ صوبے دفاع کو نظر انداز کریں، تعلیم اور صحت کے شعبوں کا بیڑہ غرق ہوتا رہے، داخلی معاملات میں صوبے وفاق کی طرف دیکھیں تو باقی بچتا کیا ہے۔ وفاق مضبوط ہو گا تو ملک میں ہر قسم کا استحکام آئے گا، یہ کوئی بہتر راستہ نہیں کہ کسی صوبے کو کم پیسے ملیں اور کسی صوبے کو زیادہ پیسے ملتے رہیں۔ صوبوں میں وسائل اور ضرورت کو دیکھتے ہوئے ترقیاتی منصوبوں کا جال بچھایا جانا چاہیے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ آپ دفاع کو نظر انداز کرتے رہیں اور این ایف سی ایوارڈ پر ڈٹے رہیں، یہ بھی نہیں ہو سکتا کہ آمدن بڑھانے پر کام نہ کریں اور اخراجات بڑھاتے چلے جائیں۔ اس لیے پاکستان کے بہتر مستقبل کی خاطر صوبوں میں وسائل کی تقسیم کے فارمولے کو ملک کے بہتر مستقبل کے ساتھ مشروط کرنا ضروری ہے۔ صوبائی خود مختاری کا نعرہ لگاتے لگاتے ہم وفاق کو کمزور کرتے رہیں کیا یہی بہتر حکمت عملی ہے، ہم کیسے اس اہم ترین پہلو کو نظر انداز کر سکتے ہیں۔ فنڈز کا وفاق کے پاس ہونا ضروری ہیں۔ وفاق ایک جیسی تعلیمی اور صحت کی سہولیات کو فراہم کرنے کا پابند ہے۔ وفاق کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس چیز کو یقینی بنائے کہ ملک کے ہر شہری کو تعلیم اور صحت کی بنیادی سہولیات یکساں میسر ہوں گی۔ سیاست دانوں کو صوبائی مصلحتوں اور محدود سیاسی سوچ سے باہر نکل کر ملک کے بہتر مستقبل کی سوچ کو اپنانا ضروری ہے۔ کیا بلوچستان کے لوگوں کا حق نہیں کہ وفاق ان کے مسائل حل کرے، کیا اندرون سندھ لوگوں کا حق نہیں کہ وفاق ان کے مسائل گھر کی دہلیز پر حل کرے۔ اندرونی طور پر امن و امان کو قائم رکھنے اور بیرونی دشمنوں کا مقابلہ کرنے کے لیے دفاعی اداروں کو مضبوط بنانے کے لیے وفاق کو بھی فنڈز کی ضرورت ہے۔ وفاق کب تک دفاع پر سمجھوتہ کرتا رہے گا، صوبے اپنی ذمہ داری نبھاتے نہیں ان حالات میں سارا ملبہ دفاعی بجٹ اور وفاق پر ڈال دینا کہاں کا انصاف ہے۔ وفاق کا طاقتور ہونا سب سے زیادہ اہم ہے، صوبوں کی خودمختاری صرف مرکز سے پیسے لینے تک ہی محدود نہیں ہے صوبوں کی اور بھی بہت سی ذمہ داریاں ہیں، بہت سے فرائض ہیں کیا صوبے وہ فرائض ادا کر رہے ہیں۔ ہمیں سب سے پہلے فرض کی ادائیگی سیکھنا ہو گی۔ صوبائی حکومتوں کو یہ دیکھنا چاہیے کہ ترقی صرف ترقیاتی منصوبوں کا ہی نام نہیں ہے بلکہ صحت، تعلیم، آسان زندگی اور زندگی گذارنے کی بنیادی اشیاء کی بلاتعطل اور سستے داموں فراہمی بھی ترقیاتی منصوبوں سے کم اہم نہیں ہے۔ اگر آپ انسانوں کو شعور و فکر سے دور کر دیں، انہیں صحت و تعلیم سے محروم رکھیں، دفاع کو نظر انداز کریں تو یوں بیک وقت ناصرف آپ کی آزادی و خود مختاری خطرے میں ہو گی بلکہ اس کے ساتھ ساتھ اپنے شہریوں کو صحت و تعلیم اور کھیلوں کی بہترین سرگرمیوں سے بھی محروم رکھیں گے۔ اس لیے یہ وقت ہے کہ ایسی قانون سازی کی جائے جس سے وفاق مضبوط ہو، ملک کا مستقبل محفوظ ہو، دفاعی طاقت میں اضافہ ہو، صحت و تعلیم کا معیار بلند ہو، کھیل کے میدان آباد ہوں اور ملک میں پائیدار ترقی کا سفر شروع ہو۔
آخر میں سید نصیر الدین نصیر کا کلام
دین سے دور، نہ مذہب سے الگ بیٹھا ہوں
تیری دہلیز پہ ہوں، سب سے الگ بیٹھا ہوں
ڈھنگ کی بات کہے کوئی، تو بولوں میں بھی
مطلبی ہوں، کسی مطلب سے الگ بیٹھا ہوں
بزمِ احباب میں حاصل نہ ہوا چین مجھے
مطمئن دل ہے بہت، جب سے الگ بیٹھا ہوں
غیر سے دور، مگر اْس کی نگاہوں کے قریں
محفلِ یار میں اس ڈھب سے الگ بیٹھا ہوں
یہی مسلک ہے مرا اور یہی میرا مقام
آج تک خواہشِ منصب سے الگ بیٹھا ہوں
عمر کرتا ہوں بسر گوشہ ء تنہائی میں
جب سے وہ روٹھ گئے، تب سے الگ بیٹھا ہوں
میرا انداز نصیر اہلِ جہاں سے ہے جدا
سب میں شامل ہوں، مگر سب سے الگ بیٹھا ہوں