پاکستان میں مذہبی حلقوں نے معیشت کے عنوان پر متعدد کتابیں مرتب کی ہیں، جن کے ذریعے سے ثابت کرنے کی مذموم کوشش کی گئی کہ اسلام کا اپنا کوئی معاشی نظام نہیں ہے ۔اور اگر کوئی موہوم تصور کسی درجے میں ہے بھی تو وہ سرمایہ داری نظام کے قریب ترین ہے ۔ مذہبی حلقوں کے ان اقدامات کے باعث عوام میں سرمایہ داری نظام کی طرف رغبت پیدا ہونا شروع ہوگئی ۔ سرمایہ داری نظام ارتکازِ دولت کی بدترین اور تباہ کن شکل ہے ۔جس نے گزشتہ تین سو سالوں میں دنیا پر معاشی جبرکا پریشان کن ما حول پیدا کیا ہے ، جو انسانیت کے بہت بڑے حصے کو بنیادی انسانی ضرورتوں سے محروم کرکے حیوانوں جیسی زندگی گزارنے پر مجبور کیے ہوئے ہے۔ لوٹ کھسوٹ کے اس عمل کے خلاف عوام میں نفرت پیدا ہونے کے بجائے انسیت نے جنم لے لیا ،اپنی محرومیوں کو دنیا میں دور کرنے کے بجائے صرف اخروی کامیابی کا موہوم تصور قائم کرلیا۔ حال آں کہ قرآن دنیا و آخرت دونوں کی کامیابی کا نظریہ دیتا ہے۔ مذہبی طبقے اس سازش کا حصہ بن کر خود تو دنیا میں جنت کے مزے لیتے ہیں، البتہ عوام کے لئے دنیا کی جنت کو کافروں کے لئے مختص کر کے عام انسانوں کو دنیا میں جہنم پر قناعت کرنے کے درس دیتے ہیں ۔قرآنی آیات اور احادیث نبویؐ کا مبہم تصور متعار ف کروا کر عوام کو جاہل بنانے کی حکمت عملی کا حصہ بن کر ظالم قوتوں سے اپنی قیمت بلا جھجک وصول کررہے ہیں ۔
مقالات معیشت نے ایسے تمام منفی تصوارت کی قلعی کھول کررکھ دی ہے ۔ اس نے مذہبی طبقے کی آڑ میں پنہاں مذموم مقاصد کو بے نقاب کردیا ہے ۔ کتاب کے مواد کے مطابق عہد نبوی میں ہی بیت المال کا قیام عمل میں آگیا تھا، لیکن کئی سالوں تک حاصل ہونے والی دولت کو اس میں جمع کرنے کے بجائے عوام کے گھروں تک پہنچانے کا اہتما م ہوتا رہا ۔ گویا اللہ تعالیٰ ،رسول خدا ﷺاور ان کی تیا ر کردہ جماعت کے پیش نظر دولت جمع کرنا مقصود نہ تھا، بلکہ اس کے ذریعے عوام کو خط غربت سے نکا ل کر خوش حال زندگی فراہم کرنا ان کی جدوجہد کا منشا اور مقدم ترین فرض رہا ہے ۔
کتاب کا مکمل نام "مقا لات معیشت قرآن و سنت کی تعلیمات اور ولی اللہی تشریحات کی روشنی میں مطالعہ معاشیات " اور عرفی نام "مقالات معیشت " ہے۔کتاب میں کل آٹھ باب قائم کیے گئے ہیں ۔پہلے باب میں معاشیات کی بنیادی اصطلاحات اور معاشی نظاموں کا تقابلی جائزہ پیش کرکے اسلام کے اقتصادی نظام کی حقانیت کو واضح کیا گیا ہے ۔ دوسرے میں قرآنی اصول معاشیات کا تعارف کروایا گیا ہے،جس میں معیشت کی استواری کے بنیادی اصول سامنے لائے گئے ہیں جو اس بات پر روشنی ڈالتے ہیں کہ انسانی جد وجہد کے نتیجے میں سماج کیا شکل اختیار کرتا ہے ۔کیا معاشرہ طبقاتی سماج کا نقشہ پیش کرتا ہے یا عدل و انصاف کا عملی نمونہ سامنے لاتا ہے ۔تیسرے باب میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اُسوہ کی روشنی میں پیدائش دولت کے عمل میں محنت کی بنیادی اور اساسی حیثیت عقلی طور پر واضح کی گئی ہے ۔ معاشی جدوجہد کی بنیاد محنت قرار دے کر اس کو خدا کا پسندیدہ عمل حتیٰ کہ دوست قرار دیا گیا ہے۔ اس کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لیے اُسوہ رسول سے 40احادیث پیش کی گئی ہیں۔چوتھا باب سرمایہ اور محنت کے باہمی کردار پر روشنی ڈالتا ہے ۔ انسانی محنت پیدائش دولت کے عمل میں اساسی اہمیت کی حامل ہے ،جب کہ سرمایہ اس میں سہولت پیدا کرتا ہے ۔ گویا انسانی دماغ کی دریافتوں اور انسانی جسم کی کاوشوں کے باہمی اختلاط سے جو مجسم شکل وجود میں آتی ہے وہی دونوں کا باہمی تعاونی کردار ہے ۔ جو پیدا واری استعداد کو بڑھانے کا ذریعہ بنتا ہے۔ دونوں کے کردار پر متوازن انداز سے بحث کی گئی ہے ۔ پانچواں باب ، موجودہ دور اقتصادیات و معاشیات کا دور کہلاتا ہے ۔
وقت کا تقاضا ہے کہ دین فطر ت کے معاشی نظام میں" محنت " جو تمام تر معاشی سرگرمیوں کی بنیاد ہے، انسان کی اجتماعی زندگی کے معاشی پہلو میں اس کی قدر و قیمت کی اہمیت کو اجاگر کیا جائے ۔ چھٹا باب ہند کے بہت بڑے مفکر ،فلسفی ،محقق ،اور امام، شاہ ولی اللہ دہلوی کے معاشی افکار پر روشنی ڈالتا ہے ۔ انہوں نے انسانی سماج میں معیشت کی اہمیت کو اس وقت اجاگر کیا ہے ، جب معاشیات پر بات کرنا معیوب سمجھا جاتا تھا۔ انہوں نے نہ صر ف معاشیات کے موضوع پر بات کی بلکہ اس سے متعلق فکر و فلسفہ بھی مدون کیا ۔ انسانیت کے پیش آمدہ سیاسی اور معاشی مسائل کا جو حل پیش کیا ہے ا سے سماج کے باشعور طبقات کے غور فکر کے لیے پیش کیا گیا ہے ۔ساتواں باب قرضوں کی معیشت اور اس کی تباہ کاریوں کے عنوان کے تحت ترتب دیا گیا ہے ۔ آج کے عہد میں بینک جو قرضے جاری کرتا ہے، کیا اس سے معیشت کو فروغ ملتا ہے یا چلتے کاروبار سکڑنا شروع ہوجاتے ہیں ۔ یہاں تک کہ اکثر کاروباری ادارے اپنے پیداواری عمل سے بھی محروم ہوجاتے ہیں۔ اس سارے عمل میں جو ادارے ملوث ہیں ان کے کردار پر عقلی بنیادوں پر بحث کی گئی ہے ۔ آٹھویں باب میں روایتی بینکاری کے نقصانات کے ساتھ ساتھ اسلامی بینکاری کے عنوان پر معاشرے میں جو کچھ ہورہا ہے، کو زیر بحث لایا گیا ہے ۔ آج اسلامی بینکاری روایتی بینکاری کے مقابلے میں فروغ پارہی ہے ۔لوگ اسے اسلامی سمجھ کر اختیار کرتے جارہے ہیں ۔ حالانکہ یہ روایتی بینکاری کے مقابلے میں مہنگی اور زیادہ تقصان دہ ہے ۔اس حوالے سے اس کا عملی ڈھانچہ زیر بحث لایا گیا ہے ۔
معاشیات کے موضوع پر پاکستان میں لکھی گئی تمام کتابوں میں یہ کتاب منفرد مقام کی حامل ہے ۔ کتاب کے مصنف مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری نے اس کی تالیف و ترتیب کے ذریعے واضح کیا ہے کہ عہد حاضر کے سلگتے ہوئے معاشی مسائل کا بہترین اور قابل عمل حل، دین اسلام کےاقتصادی و معاشی نظام کے ولی اللہی افکار کی تشریحات کے بغیر ناممکن ہے ۔
مررا محمد رمضان