اسلام آباد ہائیکورٹ نے پاکستان تحریک انصاف ( پی ٹی آئی ) کے بانی عمران خان اور وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی کی سائفر کیس میں سزاؤں کے خلاف اپیلوں پر سماعت پیر تک ملتوی کر دی جبکہ دوران سماعت عدالت نے ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد کو ہدایت کی کہ دونوں اسٹیٹ کونسلز کی سی وی جمع کرائیں۔
بدھ کے روز اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب پر مشتمل دو رکنی بینچ نے سائفر کیس میں عمران خان اور شاہ محمود قریشی کی سزاؤں کے خلاف اپیلوں پر سماعت کی جس کے دوران بانی پی ٹی آئی کے وکیل بیرسٹر سلمان صفدر اور وفاقی تحقیقاتی ایجنسی ( ایف آئی اے ) کے پراسیکیوٹر حامد علی شاہ عدالت عالیہ میں پیش ہوئے۔
لازمی پڑھیں۔ سائفر کیس، آرٹیکل 10 اے کے مطابق فیئر ٹرائل کے تقاضے پورے کرنا ضروری ہے، اسلام آباد ہائیکورٹ
ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد بھی عدالتی حکم پر آج عدالت میں پیش ہوئے۔
وکیل بیرسٹر سلمان صفدر کے دلائل
بیرسٹر سلمان صفدر نے آج دلائل کا آغاز کرتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ جج صاحب ای میل لکھتے ہیں کہ ملزمان کو سرکاری وکلا دیئے جائیں، جب ہم اگلے روز جاتے ہیں تو اعظم خان اندر سے باہر آرہے ہوتے ہیں، اعظم خان بتاتے ہیں کہ ان پر تو جرح ہو بھی چکی ہے۔
جسٹس اورنگزیب نے استفسار کیا کہ 24 جنوری تک چاروں گواہوں پر جرح ہو چکی تھی؟ جس پر وکیل نے بتایا کہ اس کے بعد 6 روز میں تمام گواہوں کے بیانات ہو کر ان پر بھی جرح ہوگئی۔
عدالت نے استفسار کیا کہ ایڈووکیٹ جنرل نے کیسے سمجھا کہ اسٹیٹ کونسل تعینات کیے جائیں؟، ایڈووکیٹ جنرل کیوں؟ بار ایسوسی ایشن کا صدر کیوں نہیں تھا ؟، اسٹیٹ کونسل تو پراسیکوشن کی طرف سے بھی ہوتا ہے ، ان دونوں اسٹیٹ کونسلز کی کتنی اسٹینڈنگ ہے؟۔
لازمی پڑھیں۔ گزشتہ سماعت کا مکمل احوال
ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نے بتایا کہ عبدالرحمن 2019ء سے ہائی کورٹ کا لائسنس رکھتے ہیں، حضرت یونس 2017ء سے ہائیکورٹ میں پریکٹس کر رہے ہیں، مجھے اے ٹی سی جج سے اسٹیٹ کونسل تعینات کا لیٹر آیا تھا۔
سلمان صفدر نے موقف اختیار کیا کہ یہ جج کے مس کنڈکٹ کا کیس ہے۔
جسٹس میاں گل حسن نے ریمارکس دیئے کے جج نے ایڈووکیٹ جنرل سے اسٹیٹ کونسل مانگا انہوں نے تعینات کردیا، جب میں اسپیشل کورٹس دیکھ رہا تھا تو آفیشل سیکریٹ ایکٹ عدالت میں 6 کیسز تھے۔
سلمان صفدر نے کہا کہ میں نے جج پر اعتراض کی درخواست دی تھی کہ آپ یہ کیس نا سنیں ، میں نے کہا آپ نے ہماری غیر موجودگی میں گواہ کا بیان ریکارڈ کرالیا، جج صاحب نے 3 گھنٹے تک ہماری درخواست سنی پھر وہ خارج کردی ، 26 جنوری کو ہمیں نہیں پتہ تھا کہ سرکاری وکیل تعینات ہو گئے ہیں۔
عدالت نے سلمان صفدر کو ہدایت کی کہ آپ 26 جنوری کے بعد کے تمام آرڈرز پڑھیں اور استفسار کیا کہ آپ نے اسٹیٹ کونسلز میں سے ہی نام کیوں دیئے ؟ کسی اور وکیل کا کیوں نہیں؟ جس پر ایڈووکیٹ جنرل نے بتایا کہ ٹرائل کورٹ کے آرڈر میں واضح لکھا تھا کہ اسٹیٹ کونسلز مقرر کئے جائیں۔
سلمان صفدر نے کہا کہ یہ پروفیشنل مس کنڈکٹ کا کیس ہے جبکہ جسٹس گل حسن نے ریمارکس دیئے کہ ایڈووکیٹ جنرل تو واضح ہیں کہ اسٹیٹ کونسلز مانگے انہوں نے دے دیئے۔
سلمان صفدر نے موقف اختیار کیا کہ سرکاری وکلاء نے 27 جنوری کو 10 گواہوں کے بیانات کرائے، ہائیکورٹ میں عبد الرحمن بطور سرکاری وکیل بھی پیش ہوتے رہے، عثمان گل نے درخواستیں دائر کیں لیکن جج صاحب نے مسترد کردیں ، علی بخاری نے درخواست دی کہ سکندر ذوالقرنین سے رابطہ کی اجازت دی جائے، عبد الرحمن صاحب جیل ٹرائل میں آتے رہے لیکن حاضری شیٹ پر نہیں ہے۔
اس موقع پر اسٹیٹ کونسل عبدالرحمان کا کہنا تھا کہ ایسا کبھی نہیں ہوا، میں سائفر کیس ٹرائل کے دوران کبھی نہیں گیا۔
عدالت نے ایڈووکیٹ جنرل کو ہدایت کی کہ کیا عبد الرحمن جیل جاتے رہے یہ تصدیق کرائیں اور کہا کہ ہم سپریڈنٹ اڈیالہ جیل سے بھی اس حوالے سے پوچھیں گے۔
عدالت نے ایڈووکیٹ جنرل کو ہدایت کی کہ دونوں اسٹیٹ کونسلز کی سی وی بھی جمع کرائیں۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ عبدالرحمن کی انٹری کا سپریٹنڈنٹ جیل سے ریکارڈ مانگ لیتے ہیں۔
بعدازاں، عدالت نے کیس مزید سماعت پیر تک ملتوی کردی۔