اسلام آباد ہائیکورٹ نے بانی پاکستان تحریک انصاف ( پی ٹی آئی ) عمران خان اور وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی کی سائفر کیس میں سزاؤں کے خلاف اپیلوں پر ایڈووکیٹ جنرل کو نوٹس جاری کرتے ہوئے سماعت کل تک ملتوی کردی جبکہ دوران سماعت چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیئے کہ آرٹیکل 10 اے کے مطابق فیئر ٹرائل کے تقاضے پورے کرنا ضروری ہے۔
آج کی سماعت کا احوال
منگل کے روز اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب پر مشتمل دو رکنی بینچ نے سائفر کیس میں عمران خان اور شاہ محمود قریشی کی سزاؤں کے خلاف اپیلوں پر سماعت کی جس کے دوران بانی پی ٹی آئی کے وکیل بیرسٹر سلمان صفدر اور وائس چیئرمین کی جانب سے سکندرذوالقرنین پیش ہوئے۔
لازمی پڑھیں۔ گزشتہ سماعت کا مکمل احوال
وفاقی تحقیقاتی ایجنسی ( ایف آئی اے ) کی پراسیکیوشن ٹیم میں سپیشل پراسیکیوٹرز حامد علی شاہ اور ذوالفقار نقوی عدالت میں پیش ہوئے۔
وکیل سلمان صفدر کے دلائل
سلمان صفدر نے اپنے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ روزعدالت کو ایف آئی آر، چالان اور ٹرائل کورٹ کارروائی سے متعلق آگاہ کردیا تھا، کبھی ایسا نہیں ہوا کہ دستاویزات میں سے چیزیں کاٹ کر دوبارہ لگائیں، 12 اکتوبر 2022 کی شکایت ہے جبکہ وصولی 13 اکتوبر کی ہے، ایف آئی اے کے سامنے شکایت کنندہ سیکرٹری داخلہ نسیم کھوکھر ہے، وفاقی حکومت کی منظوری سےسیکرٹری داخلہ نے شکایت درج کرائی تھی۔
وکیل سلمان صفدرنے وفاقی حکومت کا سائفرسے متعلق پہلا نوٹیفیکیشن بھی عدالت کو پڑھ کر سنایا۔
وکیل نے بتایا کہ 5 اکتوبر 2022 کو کس نے انکوائری شروع کی اس حوالے سے کوئی دستاویز عدالتی ریکارڈ پر نہیں، اگر یہ دستاویز ریکارڈ پر نہ ہو تو کیس کی بنیاد ہی نہیں تو کیس ختم ہو جائے گا ، تفتیشی نے بیان میں کہا 5 اکتوبر انکوائری ڈی جی ایف آئی اے کی ہدایت پر شروع کی، ڈی جی ایف آئی اے اس کیس میں گواہ بھی نہیں ہے ۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے استفسار کیا کہ کیا وزارت داخلہ نے ڈی جی ایف آئی اے کو انکوائری کا کہا تھا؟ ، آپ ہی کہہ رہے ہیں انکوائری شکایت دائر ہونے سے پہلے شروع ہوئی۔
یہ مکس ہائبرڈ کیس ہے، چیف جسٹس
وکیل سلمان صفدر نے بتایا کہ بالکل اسی طرح ہی ہوا اس طرح تو مکمل ڈھانچہ ہی منہدم ہو جائے گا ، جتنے بھی کیسز بانی پی ٹی آئی کے خلاف آئے ہیں وہ آؤٹ آف دا باکس ہی رہے ہیں، توشہ خانہ ، سائفر ، عدت میں نکاح کیس کا فیصلہ بھی اسی طرح ہی آیا ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ یہ وائٹ کالر کیس بھی نہیں نہ ہی قتل کیس کی طرح کہہ سکتے ہیں، یہ مکس ہائبرڈ کیس ہے۔
سلمان صفدر نے کہا کہ یہ ریاست کے خلاف جرم کا کیس ہے۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے استفسار کیا کہ یہ دونوں سرکاری وکیل عدالت نے تعینات کیے تھے ، کیا ایڈووکیٹ جنرل نے نام بھیجے تھے ؟ ، جس پر سلمان صفدر نے بتایا کہ جی ایڈووکیٹ جنرل نے یہ تعینات کیے تھے۔
عدالت نے ریمارکس دیئے کہ پھر تو ہمیں ایڈووکیٹ جنرل کو نوٹس کر کے سننا پڑے گا۔
عدالت نے استفسار کیا کہ ان سرکاری وکلا کی اسٹینڈنگ کیا تھی ؟۔
وکیل سلمان صفدر نے بتایا کہ 24 جنوری کو چار گواہوں پر شام تک جرح ہوئی ،25 جنوری کو بانی پی ٹی آئی کے وکیل نے بیماری کی وجہ سے التوا کی درخواست دی، علی بخاری ، شاہ محمود قریشی کے وکیل تھے ، وہ الیکشن لڑ رہے تھے، 15 دن بعد انتخاب ہو رہے تھے۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے استفسار کیا کہ کیا جلدی تھی ؟ جس پر وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ شاید یہ کسی ڈیڈ لائن کو پہنچنا چاہ رہے تھے، کھانے کے بغیر سخت سردی میں ہم جیل ٹرائل کے دوران موجود تھے۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے سلمان صفدر نے استفسار کیا کہ کیوں ؟ جس پر انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس تو کوئی جواب نہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آرٹیکل 10 اے کے مطابق فیئر ٹرائل کے تقاضے پورے کرنا ضروری ہے۔
بعدازاں، عدالت عالیہ نے ایڈووکیٹ جنرل کو نوٹس جاری کرتے ہوئے کیس کی مزید سماعت بدھ تک ملتوی کردی۔
ایڈووکیٹ جنرل نے بانی پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کیلئے سرکاری وکیل تجویز کیے تھے۔