پشاور ہائیکورٹ نے مخصوص نشستوں کی تقسیم کے حوالے سے سنی اتحاد کونسل کی درخواستوں پر فیصلہ سنادیا جس کے تحت ہائیکورٹ کے لارجر بینچ کی جانب سے درخواستیں متفقہ طور پر خارج کردی گئی ہیں۔
پشاور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اشتیاق ابراہیم کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بنچ نے سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستیں دیگر جماعتوں میں تقسیم کرنے سے متعلق کیس کی سماعت کی جبکہ جسٹس اعجاز انور، جسٹس ایس ایم عتیق شاہ، جسٹس شکیل احمد اور جسٹس سید ارشد علی لارجر بینچ کا حصہ تھے۔
سنی اتحاد کونسل کے وکیل بیرسٹر علی ظفر کے دلائل
جمعرات کے روز ہونے والی سماعت کے آغاز پر سنی اتحاد کونسل کے وکیل بیرسٹرعلی ظفر نے دلائل شروع کرتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ دسمبر 2023 میں پی ٹی آئی سے بلے کا نشان الیکشن کمیشن نے واپس لیا، پی ٹی آئی امیدواروں نے آزاد حیثیت سے الیکشن میں حصہ لیا، پشاور ہائی کورٹ نے جنوری 2024 میں الیکشن کمیشن کے فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے نشان بحال کیا، پھر سرپم کورٹ نے پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کو کالعدم قراردے کر الیکشن کمیشن کے فیصلے کو بحال کردیا۔
لازمی پڑھیں۔ مخصوص نشستیں، ’’ باپ کا حق زیادہ ‘‘، جسٹس اعجاز، ہمیں بیٹا سجھ لیں، بیرسٹر علی ظفر
علی ظفر نے کہا کہ 8فروری کو انتخابات میں پی ٹی آئی حمایت یافتہ امیدوار زیادہ کامیاب ہوئے۔
جسٹس اعجاز انور نے ریمارکس دیئے کہ بیرسٹر صاحب ہم صرف خیبر پختونخوا کی حد تک کیس کو سنیں گے، قومی اور صوبائی اسمبلی خیبر پختونخوا کی نشستوں کو ہم دیکھ سکتے ہیں جس پر علی ظفر نے بتایا کہ قومی اسمبلی میں 91 ، خیبرپختونخوا میں 90 ،پ نجاب میں 107، سندھ میں 9 اور بلوچستان میں ایک نشست ہے، قومی اسمبلی میں 86، کے پی میں 90 ، پنجاب میں 107 ، سندھ میں 9 اور بلوچستان میں ایک ممبر نےسنی اتحاد کونسل کو جوائن کیا
علی ظفر کی عدالت سے معافی
علی ظفر نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے ہماری78 مخصوص نشستیں الاٹ نہیں کی، ہم نے فہرست جمع نہیں کرائی ، دیگر جماعتیں ہماری نشستیں لینے الیکشن کمیشن پہنچ گئی، انہوں نے الیکشن کمیشن سے کہا کہ سنی اتحاد سیاسی جماعت نہیں، سنی اتحاد نے الیکشن کمیشن کو مخصوص نشستوں کیلیے کوئی فہرست نہیں دی۔
لازمی پڑھیں۔ سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں بارے درخواست پر گزشتہ سماعت کا احوال
علی ظفر نے کہا کہ جس طرح زمین کا قبضہ مافیا ہوتا ہے اس طرح دیگر سیاسی جماعتیں مخصوص نشست قبضہ مافیا نکلی جس پر جسٹس اعجاز نے ریمارکس دیئے کہ بیرسٹر صاحب آپ اسکو قبضہ مافیا نہیں کہہ سکتے، یہ فیصلہ الیکشن کمیشن نے کیا ہوا ہے، قبضہ کیسے کہہ سکتے ہیں۔
جسٹس اشتیاق ابراہیم نے ریمارکس دیئے کہ بیرسٹر صاحب آپ بہت سخت الفاظ کا استعمال کیوں کررہے ہیں جس پر علی ظفر نے عدالت سے معافی مانگتے ہوئے استدعا کہ میرے ان الفاظ کو حذف کیا جائے۔
اس معاملے پر آئین خاموش ہے
علی ظفر نے کہا کہ عدالت کے اٹھائے گئے چھ سوالات بہت اہم ہیں، اگر ایک سیاسی جماعت انتخابات میں حصہ نہ لے تب اسکا کیا اسٹیٹس رہتا ہے، الیکشن ایکٹ میں سیاسی جماعت کا ذکر موجود ہے، سنی اتحاد کونسل ان لسٹ پارٹی اور انتخابی نشان رکھتی ہے، سنی اتحاد نے الیکشن نہیں لڑا لیکن یہ ضروری نہیں کیونکہ بائیکاٹ بھی الیکشن کا حصہ ہوتا ہے۔
جسٹس شکیل نے استفسار کیا کہ یہ بتائیں کہ اگر انتخابات میں حصہ نہیں لیتے پھر کیا اثرات ہونگے جس پر علی ظفر نے کہا کہ ایک سیاسی جماعت کے بنیادی حقوق کیا ہے، آئین کے آرٹیکل 17 کے تحت بنیادی حقوق فراہم کئے گئے ہیں۔
علی ظفر نے کہا کہ سیاسی جماعت اور پارلیمانی جماعت میں فرق پر بات کروں گا، جب تک جماعت پارلیمان سے باہر ہے وہ سیاسی جماعت ہے، انتخابات کے بعد جب وہ کامیاب ہوتی ہےتو پارلیمانی جماعت بن جاتی ہے، مخصوص نشست کا جنرل نہیں فارمولہ کے تحت الیکشن ہوتا ہے، جنرل الیکشن میں سیاسی جماعت کی کامیابی کے تناسب پرمخصوص نشست الاٹ کی جاتی ہے۔
جسٹس عتیق شاہ نے استفسار کیا کہ اگر آزاد امیدوار کامیاب ہوتے ہیں تو پھرمخصوص نشستوں کا کیا ہوگا جس پر علی ظفر نے کہا کہ اگر ایسا ہوتا ہے تو اس معاملے پر آئین خاموش ہے۔
آپ نے جب سنی اتحاد جوائن کی تب آپ کو پتہ نہیں تھا؟ ، جسٹس عتیق شاہ
جسٹس عتیق شاہ نے استفسار کیا کہ کیا یہ مخصوص نشستیں سیاسی جماعت کی ہوتی ہیں جبکہ جسٹس ارشد علی نے استفسار کیا کہ آپ پی ٹی آئی کا کیس نہیں سنی اتحاد کا کیس لڑ رہے ہیں، آپ دونوں جماعتوں میں فرق صرف اتنا ہے کہ سنی اتحاد کے پاس انتخابی نشان ہے، آپ نے جب سنی اتحاد جوائن کی تب آپ کو پتہ نہیں تھا؟، آپ ہمیں اس نقطے پر قانون بتائے۔
جسٹس اعجاز انور نے استفسار کیا کہ آپ سیاسی جماعت کیسے بن گئے، انتخابات میں کوئی جنرل نشست نہیں جیت سکے جبکہ جسٹس شکیل احمد نے کہا کہ یہ مخصوص نشست کی تقسیم جنرل سیٹ کے تحت ہوتی ہے اور جسٹس ارشد علی نے ریمارکس دیئے کہ اس میں لکھا ہے آپ کو جنرل نشست کے تناسب میں مخصوص نشست الاٹ ہوگی۔
جسٹس ارشد نے علی ظفرسے استفسار کیا کہ کیا آپ نے سنی اتحاد میں شامل ہونے سے پی ٹی آئی کا کیس کمزورنہیں کیا؟۔
علی ظفر نے بتایا کہ جی بلکل ایسا ہی ہے، ہمارے سامنے کچھ مسائل تھے، انتخابی نشان نہیں تھا اور انٹر پارٹی انتخابات بھی کالعدم ہوئے تھے جس پر جسٹس ارشد نے ریمارکس دیئے کہ جب سپریم کورٹ کا فیصلہ آیا تو آپ کے پاس وقت تھا، انٹرا پارٹی انتخابات کروا سکتے تھے، آپ نے جو فیصلے دئیے اس میں پی ٹی آئی کا کیس مضبوط ہے، مگر سنی اتحاد کونسل نے تو الیکشن ہی نہیں لڑا۔
جسٹس اشتیاق ابراہیم نے استفسار کیا کہ اگر کل کو بیس آزاد لوگ آجاتے ہیں اور کوئی پارٹی جوائن کرتے ہیں ، جس نے نہ کوئی الیکشن لڑا ہو تو پھر؟ ، جو آپ چاہ رہے ہیں ہمیں اپنے فیصلے کے مستقبل میں بھی اثرات دیکھنے ہوںگے، الیکشن ایکٹ 2017 تمام سیاسی جماعتوں نے مل کر پاس کیا تھا۔
آئین کے آرٹیکل 51 ڈی نے ہمیں حق دیا ہے، علی ظفر
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 51 ڈی نے ہمیں حق دیا ہے، اگر کسی جماعت کی پارلیمان میں ایک سیٹ ہو اور 90مزید ارکان اس میں شامل ہو جائے، تو مخصوص نشست کے لیے فہرست دی جا سکتی ہے۔
جسٹس اشتیاق ابراہیم نے ریمارکس دیئے کہ کیا یہ امتیازی سلوک اس سیاسی جماعت کے ساتھ نہ ہو گا جو جنرل انتخابات لڑ کر آئی ہے، سنی اتحاد کونسل نے نہ کوئی لسٹ دی نہ انتخابات میں حصہ لیا جبکہ جسٹس اعجاز انور نے کہا کہ ہوسکتا ہے کہ اس پارٹی کو انٹرسٹ نہ ہو مخصوص نشستوں کا۔
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ یہ بھی ہوسکتا ہے سیاسی وجوہات کی بنا پر اس نے الیکشن میں حصہ نہ لیا ہو، یا اس پر پریشر ہو۔
الیکشن کمیشن کے وکیل
الیکشن کمیشن کے وکیل سکندر بشیر نے موقف اختیار کیا کہ درخواست گزارنے خیبرپختونخوا کی نہیں پورے پاکستان کی استدعا کی ہے، انہوں نےکہا کہ الیکشن کمیشن کے فیصلے کو ہی کالعدم کیا جائے، درخواست گزار نے دیگر ہائی کورٹس سے بھی رجوع کیا ہے، انہوں نے لاہور ہائیکورٹ میں بھی لارجر بینچ بنانے کی استدعا کی ہے، بیرسٹر علی ظفر الیکشن ایکٹ 2017 کی ترمیمی کمیٹی کے ممبر تھے، سب سیاسی جماعتوں کی مشاورت کے ساتھ قانون بنایا گیا تھا۔
دلائل مکمل
بعدازاں، پانچ رکنی بینچ نے دلائل مکمل ہونے پر کیس کا فیصلہ محفوظ کیا اور مختصر وقفے کے بعد فیصلہ سناتے ہوئے سنی اتحاد کونسل کی درخواستیں خارج کردیں۔
فیصلہ
بینچ کے سربراہ جسٹس اشتیاق ابراہیم نے فیصلہ پڑھ کر سنایا جس میں کہا گیا کہ متفقہ طور پر درخواستیں مسترد کی جاتی ہیں۔
عدالت عالیہ کی جانب سے کہا گیا کہ ہمارے پاس خیبرپختونخوا کی حد تک کیس سننے کا اختیار ہے۔