پشاور ہائیکورٹ میں مخصوص نشستوں سے متعلق درخواست پر سماعت کے دوران جسٹس اعجاز انور اور سنی اتحاد کونسل کے وکیل بیرسٹر علی ظفر کے درمیان دلچسپ مکالمہ سامنے آگیا۔
پشاور ہائیکورٹ کے جسٹس اشتیاق ابراہیم کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بنچ نے سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستیں دیگر جماعتوں میں تقسیم کرنے سے متعلق کیس کی سماعت کی جبکہ جسٹس اعجاز انور، جسٹس ایس ایم عتیق شاہ، جسٹس شکیل احمد اور جسٹس سید ارشد علی لارجر بینچ کا حصہ ہیں۔
سماعت کے دوران دلائل دیتے ہوئے سنی اتحاد کونسل کے وکیل بیرسٹر علی ظفر اور جسٹس اعجاز انور کے درمیان دلچسپ مکالمہ ہوا۔
بیرسٹر علی ظفر نے دلائل دیئے کہ یہ جو حالات بن گئے ہیں ایسا پہلی مرتبہ ہوا ہے جس پر جسٹس اعجاز انور نے استفسار کیا کہ دیگر جماعتوں کو انکا مخصوص نشست کا حصہ مل چکا؟، کیا یہ مخصوص نشستیں خالی نہیں رہنی چاہئیے؟۔
بیرسٹر علی ظفر نے بتایا کہ بلکل خالی بھی رہنی چاہئیے اور دوبارہ سے الیشکن ہونا چاہئیے جس پر جسٹس اعجاز نے استفسار کیا کہ کیا ایسا کبھی پہلے ہوا ہے ؟۔
لازمی پڑھیں۔ پشاور ہائیکورٹ، سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں بارے درخواست پر سماعت کا احوال
بیرسٹر علی ظفر نے جواب دیا کہ بلوچستان عوامی پارٹی ( باپ ) کو 2018 میں مخصوص سیٹ الاٹ کی گئیں ہیں۔
جسٹس سید ارشد علی نے ریمارکس دیئے کہ الیکشن کمیشن نے فیصلے میں کہا کہ آپ نے وہ دستاویزات نہیں دیں جس پر علی ظفر نے کہا کہ وہ الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ پر موجود ہیں۔
اس موقع پر جسٹس اعجاز انور نے دلچسپ ریمارکس دیئے کہ ’’ باپ کا حق تو زیادہ ہے ‘‘ جس پر عدالت میں قہقہے لگ گئے اور اسی موقع پر بیرسٹر علی ظفر نے جواب میں کہا کہ ’’ ہمیں پھر آپ بیٹا سمجھ لیجئے، ‘‘۔