سپریم کورٹ آف پاکستان نے سابق وزیر اعظم اور پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار بھٹو کی پھانسی کیخلاف صدارتی ریفرنس پر رائے دے دی جس میں کہا گیا ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کا ٹرائل آئین و قانون کے مطابق نہیں تھا۔
چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے رائے سنانے سے قبل واضح کیا کہ سپریم کورٹ کا آرڈر متفقہ ہے۔
عدالت عظمیٰ کی جانب سے اپنی رائے میں کہا گیا کہ تاریخ میں کچھ کیسز ہیں جنہوں نے تاثر قائم کیا عدلیہ نے خوف میں فیصلہ دیا، ماضی کی غلطیاں تسلیم کئے بغیر درست سمت میں آگے نہیں بڑھا جا سکتا۔
صدارتی ریفرنس میں سوال تھا کہ کیا فئیر ٹرائل ہوا تھا یا نہیں ؟ ، بھٹو ٹرائل میں فئیر ٹرائل کے بنیادی حق پر عمل نہیں کیا گیا۔
عدالت عظمیٰ کی جانب سے کہا گیا کہ ایڈوائزری دائرہ اختیار میں بھٹو کیس میں شواہد کا دوبارہ جائزہ نہیں لے سکتے، ذوالفقار علی بھٹو کو فئیر ٹرائل نہیں ملا ہماری رائے یہی ہے، بھٹو ٹرائل میں فئیر ٹرائل کے بنیادی حق پر عمل نہیں کیا گیا۔
سپریم کورٹ کی جانب سے کہا گیا کہ بھٹو کا ٹرائل آئین و قانون کے مطابق نہیں تھا۔
عدالت عظمیٰ کے مطابق فیصلہ عدالتی نظیر ہے یا نہیں؟، اس سوال میں قانونی اصول واضح نہیں کیا گیا۔
عدالتی رائے کے مطابق آئین اور قانون ایسا مکینزم نہیں فراہم کرتا کہ بھٹو کیس کا فیصلہ اب کالعدم قراردیا جائے، ذوالفقار علی بھٹو کیس میں نظر ثانی درخواست خارج ہو چکی، فیصلہ حتمی ہو چکا، لاہور ہائیکورٹ میں ٹرائل اور سپریم کورٹ میں اپیل کی کارروائی بنیادی حقوق کے مطابق نہیں تھی۔
عدالت عظمیٰ نے کہا کہ ایڈوائزی دائرہ اختیار میں شواہد کو دوبارہ دیکھ کر فیصلہ ختم نہیں کر سکتے، تفصیلی رائے میں ٹرائل میں بڑی خامیوں اور قانونی نقائص کی نشاندہی کر دیں گے۔
رائے میں کہا گیا کہ اسلامی تناظر میں سزا کی حیثیت پر معاونت نہیں ملی، ذوالفقار علی بھٹو کیس پر اسلامی تناظر میں رائے دینا مناسب نہیں ہوگا۔
بلاول بھٹو آبدیدہ
عدالت عظمیٰ کی جانب سے رائے سنائے جانے کے وقت چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری بھی کمرہ عدالت میں موجود تھے جو اس موقع پر آبدیدہ بھی ہوئے۔
بعد ازاں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بلاول بھٹو نے کہا کہ سپریم کورٹ نے آج تاریخی فیصلہ سنایا ہے اور تسلیم کیا ہے کہ ذوالفقار بھٹو کو فیئر ٹرائل کا موقع نہیں ملا، سپریم کورٹ کے تفصیلی فیصلے کے انتظار میں ہیں، تفصیلی فیصلے کے بعد میڈیا سے گفتگو کریں گے۔
یاد رہے کہ چیف جسٹس کی سربراہی میں 9 رکنی لارجر بینچ نے 4 مارچ کو رائے محفوظ کی تھی جبکہ بینچ میں جسٹس سردار طارق مسعود، جسٹس منصور علی شاہ جسٹس یحیی آفریدی، جسٹس امین الدین، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر ، جسٹس حسن اظہر رضوی اور جسٹس مسرت ہلالی بینچ کا حصہ تھے۔
سابق جسٹس منظور ملک، وکلاء مخدوم علی خان، صلاح الدین عدالتی معاونین تھے ، عدالتی معاون سابق اٹارنی جنرل خالد جاوید ، بیرسٹر اعتزاز احسن ، پیپلز پارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک، رضا ربانی نے بھی ریفرنس پر دلائل دیئے۔
احمد رضا قصوری ، اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان اور ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بھی دلائل دیئے تھے۔
صدراتی ریفرنس 2011ء میں اس وقت کے صدر آصف علی زرداری نے دائر کیا تھا جبکہ کیس کی کاروائی سپریم کورٹ کے یوٹیوب چینل پر براہ راست نشر کی جاتی رہی۔