روپے کی قدر میں اضافہ اور ڈالر کی قیمت میں مزید کمی کی پیشگوئیوں کے باوجود آٹو اسمبلرز اس کا فائدہ صارفین تک پہنچانے میں ہچکچا رہے ہیں۔
ایک موقر روزنامے کی رپورٹ کے مطابق صارفین نے گزشتہ حکومت کے 16 ماہ کے دور میں گاڑیوں کی قیمتوں میں بھاری اضافہ دیکھا جوکہ اسمبلرز کے مطابق ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں کمی کی وجہ سے درآمدی پرزہ جات کی زیادہ لاگت اور ساتھ ہی بجلی اور گیس کے بھاری چارجز کی وجہ سے ہوا تاہم انٹربینک میں روپے کی قدر میں اضافے نے درآمدی پرزوں کی قیمتوں میں کمی ضرور کی ہوگی یا درآمدی پرزہ جات کی قیمت میں اضافے کے رجحان کو کم ضرور کیا ہوگا لیکن صارفین کو ابھی تک اس کا کوئی فائدہ نظر نہیں آیا۔
رپورٹ کے مطابق اسمبلرز اس سے قبل روپے کی گراوٹ کی وجہ سے صارفین کو قیمتوں میں اضافے کی صورت میں فوری دھچکے دے چکے ہیں، حتیٰ کہ ایل سیز کھلنے کے مسائل اور درآمدی پرزوں کی قلت کے سبب پلانٹس بند بھی کرنے پڑے ہیں۔
رپورٹ میں ایک کارساز کمپنی کے ایک سینیئر عہدیدار کے حوالے سے لکھا گیا ہے کہ گاڑیوں کی قیمتوں میں کمی کا کوئی امکان نہیں تاہم انہوں نے اس کی کوئی وجہ نہیں بتائی کہ گاڑیوں کی قیمتوں میں کمی کیوں نہیں آسکتی تاہم ایک دیگر کمپنی کا مؤقف ہے کہ کمپنی نے ڈالر کی قیمت میں اضافے کے بعد قیمتوں میں اضافہ نہیں کیا تھا۔
مقامی طور پر اسمبل شدہ کاروں کے مجاز ڈیلرز نے بھی سخت کاروباری ماحول کے پیش نظر قیمتوں میں کمی کا کوئی اشارہ نہیں دیا، گزشتہ سال کے مقابلے میں گاڑیوں کی فروخت میں بھی کمی آئی ہے۔
یاد رہے کہ رواں ماہ 5 ستمبر کو انٹربینک میں ڈالر 307.10 روپے تک پہنچ گیا تھا جبکہ اِس وقت یہ 291.76 روپے پر ٹریڈ کر رہا ہے، اس کا مطلب ہے کہ بلند ترین سطح پر پہنچنے کے بعد ڈالر کی قدر میں مقامی کرنسی کے مقابلے میں 15 روپے سے زیادہ کمی آچکی ہے۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ بعض کمپنیوں نے ڈالر کی قدر بڑھنے کے بعد قیمتوں میں لاکھوں روپے کا اضافہ کیا تھا تاہم روپے کی قدر بڑھنے کے بعد ابھی تک قیمت میں کوئی کمی نہیں ہوئی ہے۔
ایک عہدیدار نے کہا کہ اگر روپیہ 280 سے نیچے مستحکم رہتا ہے اور دیگر چیزیں مہنگی نہیں ہوتی ہیں تو گاڑیوں کی قیمتوں میں کمی کے بارے میں سوچ سکتے ہیں۔ تاہم ایک دوسرے کمپنی کے عہدیدار کا کہنا ہے کہ قیمتوں میں کوئی کمی نہیں آرہی ہے کیونکہ بجلی، مزدوری اور دیگر اخراجات میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔