پشاور ہائی کورٹ میں پی ٹی آئی انٹرا پارٹی انتخابات کو کالعدم اور الیکشن کمیشن کی جانب سے انتخابی نشان بلا واپس لینے سے متعلق کیس کی سماعت چھ گھنٹے تک جاری رہی لیکن الیکشن کمیشن اور پی ٹی آئی کے وکلا نے دلائل مکمل کر لیے ہیں عدالت نے دیگر فریقین کو مہلت دیتے ہوئے سماعت کل تک ملتوی کر دی۔
پی ٹی آئی کو انتخابی نشان بلا واپس ملے گا یا نہیں،پشاور ہائی کورٹ کے جسٹس اعجاز انور اور جسٹس ارشد علی پر مشتمل دو رکنی بینچ نے سماعت کی، پی ٹی آئی کی جانب سے بیرسٹر علی ظفر اور بیرسٹر گوہر عدالت میں پیش، جسٹس ارشد علی نے استفسعار کیا کہ آپ انتخابی نشان بلا ہی کیوں مانگ رہے ہے؟ بیرسٹر علی ظفر نے دلائل دیتے ہوئے بتایا کہ یہ ہمارا پرانا انتخابی نشان ہے اس الیکشن میں بھی ہم اس پر عام انتخابات کریں گے، پی ٹی ائی کے وکلا نے موقف اپنایا کہ الیکشن کمیشن نے دائر اختیار سے تجاوز کیا، الیکشن کمیشن صرف انتخابات کے معاملے پر جرمانہ کر سکتا تھا۔
الیکشن کمیشن کے وکیل سکندر بشیر دلائل دیتے ہوئے عدالت کو بتایا کہ الیکشن کمیشن کورٹ لا نہیں لیکن ایک ریگولیٹری باڈی ہےجس پر جسٹس ارشد علی نے استفسعار کیا کہ آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ الیکشن کمیشن انتخابات اور سیاسی جماعتوں کی ریگولیٹری باڈی ہے؟ الیکشن کمیشن کے وکیل کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن ایک خود مختار ادارہ ہے،جو تحقیقات کر کے ڈیٹا اکٹھا کر سکتا ہے اور سیاسی جماعتوں کی فنڈنگ کے معاملات کو بھی دیکھتا ہے،الیکشن کمیشن کے وکیل نے عدالت سے پی ٹی ائی کی درخواست خارج کرنے کی استدعا کر دی۔
الیکشن کمیشن اور پی ٹی ائی وکلا کے دلائل مکمل ہوگئے ہیں الیکشن کمیشن میں انٹرا پارٹی انتخابات پر اعتراضات کرنے والوں کے وکلا عدالت میں پیش ہوئے وکلا نے بار کونسل کی جانب سے آج ہڑتال ہونے پر کل تک کی مہلت مانگ لی عدالت نے کل صبح نو بجے تک سماعت ملتوی کر دی۔