پاکستان میں تیزی سے بڑھتی مہنگائی اور بے روزگاری نے سماجی ڈھانچہ تہس نہس کر دیا، مڈل کلاس مسلسل سمٹنے لگی، سفید پوش طبقے کے مزید 9 فیصد لوگ خط غربت سے نیچے چلے گئے، مڈل کلاس طبقہ 42 فیصد سے کم ہو کر 33 فیصد رہ گیا، بچوں کے تعلیمی اخراجات اور بجلی کے بل تو دور کی بات دو وقت کی روٹی پوری کرنا مشکل ہوگیا۔ اقتصادی ماہرین نے سست معاشی شرح نمو اور آئی ایم ایف کی کڑی شرائط کو بنیادی وجہ قرار دیدیا۔
یو این ڈی پی کے مطابق مزید 2 کروڑ افراد کے خط غربت سے نیچے جانے پر مڈل کلاس کی شرح 42 فیصد سے کم ہو کر 33 فیصد پر آگئی، بیروزگاری کی سالانہ شرح 10 فیصد سے تجاوز کرگئی۔
اقتصادی ماہرین نے آئی ایم ایف اور معاشی سست روی کو بنیادی وجہ قرار دے دیا۔
ماہر اقتصادی امور ڈاکٹر ساجد امین کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کی پالیسیز کی وجہ سے ٹیکسز بڑھ گئے، انٹرسٹ ریٹ بڑھ گیا، سبسڈیز ختم ہوگئیں، اکنامک ایکٹی ویٹی کم ہوگئی، لوگوں کی آمدن کم اور مہنگائی بڑھ رہی ہے، غذائی اشیا کی مہنگائی 40 فیصد کے قریب چلی گئی۔
معیشت اور معاشرے کیلئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھنے والی مڈل کلاس کی تو اپنی کمر ٹوٹ گئی۔
عوام کا کہنا ہے کہ مہنگائی بہت زیادہ ہے، گزارا مشکل ہوگیا، خاص کر بجلی اور گیس کے بلوں نے ظلم کردیا، غریب آدمی کو مار دیا ہے، لوگ اپنے گھروں کا سامان بیچ کر روٹی کھانے پر مجبور ہیں۔
حکمرانوں سے ناامید شہریوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہی زندہ رکھ رہی ہے، ان سے تو کوئی توقع نہیں، آگے بھی نہیں ہوسکتی کیونکہ ابھی بہت مشکل حالات ہیں۔
ڈاکٹر ساجد امین کا کہنا ہے کہ نوجوان کو روزگار دینا ہے تو شرح نمو 10 فیصد تک لے جانا ہوگا۔
معاشی استحکام کیلئے ماہرین نے سیاسی غیر یقینی کے جلد خاتمے پر زور دیتے ہوئے کہا کہ زراعت میں سرمایہ کاری، چھوٹی صنعتوں کے فروغ اور معاشی ترقی کے ماڈل میں تبدیلی ناگزیر ہے۔
ماہرین کہتے ہیں کہ بی آئی ایس پی سمیت سماجی تحفظ کے پروگراموں کے ذریعے مڈل کلاس کی مدد بھی کرنا ہوگی۔