پاکستان میں سگریٹ نوشی سے 2019ء میں اموات 3 لاکھ 37 ہزار 50 سے تجاوز کر گئیں جبکہ ڈبلیو ایچ او کے مطابق دنیا بھر میں تماکو نوشی سے اموات 80 لاکھ سے زائد ہیں۔ عالمی اداروں کا کہنا ہے کہ پاکستان تماکو نوشی کی روک تھام کیلئے مناسب قانون سازی نہیں کررہا۔
سسٹین ایبل ڈیولپمنٹ پالیسی انسٹی ٹیوٹ (ایس ڈی پی آئی) نے ایف بی آر کے اعداد و شمار کی جانچ پڑتال کے بعد رپورٹ جاری کردی۔ جس میں بتایا گیا ہے کہ ڈبلیو ایچ او کا تخمینہ ہے کہ تمباکو کے استعمال کی وجہ سے دنیا بھر میں ہر سال 80 لاکھ سے زیادہ لوگ موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں، پاکستان میں 2019ء میں ہر ایک لاکھ افراد میں 135.14 اموات ریکارڈ کی گئیں جن کی کل تعداد تقریباً تین لاکھ 37 ہزار 500 ہے۔
پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈیولپمنٹ اکنامکس (پی آئی ڈی ای) کی ایک تحقیق کے مطابق 2019ء کیلئے پاکستان میں تمباکو نوشی سے متعلق بیماریوں اور اموات کی کل لاگت 615.07 بلین روپے ($3.85 بلین) تک پہنچ گئی، جس میں بالواسطہ اخراجات (روگ اور اموات) کل لاگت کا 70 فیصد بنتے ہیں تاہم، سگریٹ کی صنعت فیصلہ سازی پر اثر انداز ہونے میں کامیاب رہی، جس کے نتیجے میں ناصرف ممکنہ آمدنی میں 567 ارب روپے کا نقصان ہوا بلکہ ملک کے نازک صحت کے نظام پر اضافی بوجھ بھی پڑا۔
عالمی بینک نے "پاکستان میں تمباکو کے استعمال کا جائزہ، تمباکو کنٹرول قانون سازی اور ٹیکسیشن" کے عنوان سے اپنی رپورٹ میں یہ بھی انکشاف کیا ہے کہ مالی سال 2016-2017ء میں حکومتی محصولات میں کمی کی منصوبہ بندی طاقتور سگریٹ انڈسٹری نے کی تھی، یہ مطالعہ ملٹی نیشنل کمپنیوں کے اثر و رسوخ اور 3 درجے ایکسائز ڈیوٹی کے ڈھانچے کو متعارف کرانے پر توجہ دلاتا ہے، جس سے ٹیکس چوری اور صحت عامہ پر اس کے منفی اثرات کے بارے میں خدشات بڑھتے ہیں۔
اس میں مزید کہا گیا ہے کہ متعلقہ عوامل کی پیچیدہ جانچ اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ صحت عامہ کو ترجیح دیتے ہوئے آمدنی کے سلسلے کی حفاظت کیلئے ٹیکس کی پالیسیوں کا محتاط از سر نو جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔
ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (ڈبلیو ایچ او) صحت عامہ کے اقدامات کی مؤثر ترقی، نفاذ اور سگریٹ کمپنیوں کے ذاتی مفادات سے تمباکو ٹیکس کی پالیسیوں کو محفوظ رکھنے کی ضرورت پر زور دیتا ہے تاہم، پاکستان میں ایسا نہیں ہوا۔
اس تحقیق میں اس بات پر بھی روشنی ڈالی گئی کہ کس طرح اعلیٰ اور درمیانی آمدنی والے ممالک نے سگریٹ کی مصنوعات پر کھپت کو کم کرنے اور حکومتی محصولات میں اضافے کیلئے کامیابی کے ساتھ زیادہ ٹیکس عائد کئے اس کے برعکس حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں اب بھی سگریٹ پر ٹیکس لگانے اور قیمتوں کو صحت عامہ کے آلے کے طور پر استعمال کرنے کے حوالے سے واضح حکمت عملی کا فقدان ہے۔
مطالعہ کے مطابق قومی احتساب بیورو (نیب)، سینیٹ کی خصوصی کمیٹی، اور آڈیٹر جنرل آف پاکستان ریونیو (اے جی پی آر) نے بھی کثیر القومی سگریٹ انڈسٹری کو درپیش چیلنجوں کی توثیق کی ہے، پاکستان میں سگریٹ کی صنعت پر دو ملٹی نیشنل کمپنیوں کا غلبہ ہے جو پاکستان بھر میں گھریلو برانڈز فروخت کرتی ہیں، جو انہیں پالیسی سازوں پر بے پناہ کنٹرول اور اثر و رسوخ فراہم کرتی ہے۔
کثیر القومی کمپنیوں پر طویل عرصے سے حکومت کو سگریٹ مارکیٹ کے قابل اعتراض اعداد و شمار پر انحصار کرنے پر مجبور کرنے کا الزام لگایا جاتا رہا ہے۔
ایس ڈی پی آئی نے کہا کہ جیسے جیسے قوم ان خطرناک نتائج سے دوچار ہے، ماہرین تجویز کرتے ہیں کہ سگریٹ پر زیادہ ٹیکسوں کا نفاذ صحت عامہ کو فروغ دینے اور اس کے ساتھ ساتھ ملک کی معاشی بہبود کو تقویت دینے میں ایک فعال اقدام کے طور پر کام کرسکتا ہے۔