سپریم کورٹ کی جانب سے آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کی تشریح سے متعلق کیس میں وکلاء کے دلائل مکمل ہونے کے بعد فیصلہ محفوظ کر لیا گیا ہے جبکہ دوران سماعت چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ پورے ملک کو تباہ کرنے والا پانچ سال بعد اہل ہوجاتا ہے، آئین پر ایوب خان نے تجاوز کیا اور پھر یہ سلسلہ آگے چلتا گیا۔
جمہ کے روز سپریم کورٹ میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی سربراہی میں جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس امین الدین خان، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی پر مشتمل 7 رکنی بینچ نے 62 ون ایف کے تحت سیاستدانوں کی نااہلی سے متعلق کیس کی سماعت کی۔
الیکشن سے متعلق تمام کیسز آئندہ ہفتے مقرر ہوں گے، چیف جسٹس
سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے بتایا کہ الیکشن سے متعلق تمام کیسز آئندہ ہفتے ریگولر بینچ میں مقررہوں گے، اس کیس میں انفرادی لوگوں کے مقدمات نہیں سنیں گے، انفرادی لوگوں کے الیکشن معاملات آئندہ ہفتے سنیں گے، ہوسکتا ہے تب تک ہمارا اس کیس میں آرڈر بھی آ چکا ہو۔
جہانگیر ترین کے وکیل مخدوم علی خان کے دلائل
جہانگیر ترین کے وکیل مخدوم علی خان نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ اس عدالت کے سامنے بنیادی سوال اسی عدالت کے سابقہ فیصلے کا ہے، اس عدالت نے پبلک نوٹس جاری کیا اس پر آیا ہوں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ آپ کے مطابق نااہلی کا ڈیکلیریشن سول کورٹ سے آئے گا؟ جس پر مخدوم علی خان نے کہا کہ جی، ڈیکلیریشن سول کورٹ سے آئے گا، سول کورٹ فیصلے پر کسی کا کوئی بنیادی آئینی حق تاعمرختم نہیں ہوتا، کامن لا سے ایسی کوئی مثال مجھے نہیں ملی، کسی کا یوٹیلیٹی بل بقایا ہو جب ادا ہو جائے تو وہ اہل ہوجاتا ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا سول کورٹ نااہلی کا ڈیکلیریشن دے سکتا ہے؟ جس پر وکیل نے بتایا کہ سول کورٹ ایسا ڈیکلیریشن نہیں دے سکتا، کون سا سول کورٹ ہے جو کسی کو واجبات باقی ہونے پر کہہ دے یہ صادق و امین نہیں۔
یہ بھی پڑھیں۔ منافق کافر سے زیادہ خطرناک ، آمروں نے صادق و امین کی شرط اپنے لیے کیوں نہ رکھی ؟، چیف جسٹس
جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ کیا قانون سازی سے ڈیکلیریشن پر نااہلی کی مدت متعین کی جا سکتی ہے؟، جس پر مخدوم علی خان نے جواب دیا کہ آئین میں کورٹ آف لا کی بات ہے جس میں سول اور کریمنل دونوں عدالتیں آتی ہیں، گزشتہ روز جسٹس مسرت ہلالی نے پوچھا آرٹیکل 62اور63 الگ الگ رکھنے کی وجہ کیا تھی، اہلیت اور نااہلی کو الگ الگ رکھا گیا ہے۔
صرف ایک جنرل نے یہ شق ڈال دی تو ہم سب پابند ہو گئے؟ چیف جسٹس
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ ہم خود کو آئین کی صرف ایک مخصوص جز تک محدود کیوں کر رہے ہیں، ہم آئینی تاریخ کو ، بنیادی حقوق کو نظرانداز کیوں کر رہے ہیں، مخصوص نئی جزئیات داخل کرنے سے کیا باقی حقوق لے لیے گئے؟ ، ہم پاکستان کی تاریخ کو بھول نہیں سکتے، پورے ملک کو تباہ کرنے والا پانچ سال بعد اہل ہوجاتا ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ صرف کاغذات نامزدگی میں غلطی ہو جائے تو تاحیات نا اہل؟ ، صرف ایک جنرل نے یہ شق ڈال دی تو ہم سب پابند ہو گئے؟، خود کو محدود نہ کریں بطور آئینی ماہر ہمیں وسیع تناظر میں سمجھائیں۔
آرٹیکل 62 اور 63 کو ایک دوسرے سے الگ نہیں پڑھا جاسکتا، مخدوم علی خان
وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ آرٹیکل 62 اور 63 کو ایک دوسرے سے الگ نہیں پڑھا جاسکتا، ان دونوں آرٹیکلز کو بنیادی حقوق والے آرٹیکل 17 سے الگ بھی نہیں پڑھا جا سکتا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ یہ کہا گیا کہ سادہ قانون سازی سے آئین میں دی چیز نہیں بدلی جا سکتی، ہم مگر آئینی ترمیم کو بھی کالعدم کر دیتے ہیں۔
جسٹس فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ کیا پاکستانی ارکان پارلیمنٹ دنیا میں سب سے بہترین ہیں؟، جس پر مخدوم علی خان نے کہا کہ ظاہر ہے ایسا نہیں ہے، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ تو پھر ہم نے اپنے ارکان کی اہلیت کا جو پیمانہ رکھا دنیا میں کہیں اور ہے؟ جس پر وکیل نے جواب دیا کہ میرے علم میں نہیں کہ دنیا میں کہیں ایسا ہو۔
چیف جسٹس اور جسٹس منصور کے درمیان مکالمہ
دوران سماعت جسٹس منصور نے ریمارکس دیئے کہ میں آئین کو 18 ویں ترمیم کے بعد سے دیکھ رہا ہوں، ہمیں تشریح کیلئے آئین میں دیئے ٹولز پر ہی انحصار کرنا ہے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آئین نے نہیں کہا تھا نااہلی تاحیات ہے یہ ہم نے کہ، کہا گیا کہ عام قانون سازی آئینی ترمیم کا راستہ کھول سکتی ہے، اسکا کیا مطلب ہے کہ ہم اپنی مرضی سے جو فیصلہ چاہیں کردیں؟۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ پاکستان کی تاریخ کو فراموش نہیں کیا جاسکتا، نااہلی سے متعلق کیس میں پبلک نوٹس جاری کیا مگر کوئی ایک سیاسی جماعت فریق نہیں بنی، پاکستان کے عوام کا کسی کو خیال نہیں ہے، آئین پر ایوب خان نے تجاوز کیا اور پھر یہ سلسلہ آگے چلتا گیا۔
آئینی دستاویز عوام کیلئے ہے، چیف جسٹس کا مخدوم علی خان نے مکالمہ
چیف جسٹس نے وکیل مخدوم علی خان سے مکالمہ کیا کہ نیب کیس میں سزا یافتہ کیلئے تو نااہلی 10 سال ہے، یہاں نااہلی کی مدت تاحیات کیسے ہوئی، الیکشن کاغذات میں یہ بھی پوچھا جاتا ہے آپ کے پاس کتنے گرام سونا ہے، آپ گھر جا کر سونا تولیں گے پھر بتائیں گے، آپ اگر وہ انگوٹھی بھول گئے جو بیوی نے پہن رکھی ہے تو تاحیات نااہل ؟، آپ لائیو ٹی وی پر ہیں عوام کیلئے اس کی منطق تو واضح کریں، ایسی چیزوں میں جائیں گے تو لوگوں کا آئین پر اعتماد کم نہیں ہوگا؟ ، مخدوم علی خان صاحب آئینی دستاویز عوام کیلئے ہے۔
لوگوں کو طے کرنے دیں کون سچا ہے کون ایماندار، جسٹس جمال مندو خیل
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ آئین وکلاء کیلئے نہیں عوام کیلئے ہے،آئین کو آسان کریں، آئین کو اتنا مشکل نہ بنائیں کہ لوگوں کا اعتماد ہی کھو دیں، فلسفیانہ باتوں کے بجائے آسان بات کریں۔
جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ لوگوں کو طے کرنے دیں کون سچا ہے کون ایماندار ہے جبکہ جسٹس مسرت ہلالی نے سوال اٹھایا کہ ایک مخصوص کیس کے باعث حلقے کے لوگ اپنے نمائندے سے محروم کیوں ہوں؟، کیا ایک شخص کی غلطی سے پورا حلقہ متاثر کیا جا سکتا ہے؟، کیسے ممکن ہے کہ ایک شخص پر مخصوص مقدمہ بنا ہو اور پورا حلقہ اسکےنتائج بھگتے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ لارجر بینچ بنایا تا کہ سوالات کا جواب ہو لیکن معاملہ الجھتا جا رہا ہے جس پر جسٹس منصور علی نے کہا کہ انتظار کر لیتے ہیں کہ کیا پتا سوالات کے جوابات اس سے بڑے بینچ سے آجائیں۔