سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیس کے فیصلے میں 184 تین کے کیسز میں اپیل کا حق دینے کی حد تک جسٹس حسن اظہر رضوی کا اختلافی نوٹ بھی سامنے آگیا۔
سپریم کورٹ کے جج جسٹس حسن اظہر رضوی نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیس میں ایکٹ کی آئینی حیثیت پر اکثریتی فیصلے سے اتفاق کیا۔
اختلافی نوٹ میں جسٹس حسن اظہر رضوی نے سادہ قانون سازی سے اپیل کا حق دینا خلاف آئین قرار دیا اور کہا کہ ایکٹ سے پہلے 184 تین میں اپیل کے بجائے نظرثانی کا حق استعمال کیا جاتا تھا، کوئی شک نہیں کہ پارلیمان قانون سازی کا اختیار رکھتی ہے، لیکن آرٹیکل 184 تین کے مقدمات میں اپیل کا حق سادہ قانون سازی سے نہیں دیا جاسکتا۔
جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ سیکشن 5 کی ذیلی شق 2 کالعدم قرار دینے کے علاوہ باقی فیصلے سے وہ متفق ہیں۔
گزشتہ روز سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے فیصلے میں شامل جسٹس یحییٰ آفریدی کا بھی 24 صفحات پر مشتمل اختلافی نوٹ سامنے آیا تھا۔
جسٹس یحییٰ آفریدی کا اختلافی نوٹ میں کہنا تھا کہ ایکٹ میں اپیل کا حق دینے کا سیکشن 5 کالعدم قرار دیا جاتا ہے، آرٹیکل 184 تین کے فیصلوں کیخلاف اپیل کا حق دینا آئینی ترمیم سے ممکن ہے، اپیل کا حق دینا بلا شبہ ایک مثبت اقدام ہے، 184 تین کے کیسز میں اپیل کیلئے آئینی ترمیم کا راستہ اپنایا جائے۔
انہوں نے مزید کہا کہ سادہ قانون سازی سے سیکشن 5 پارلیمنٹ کے دائرہ اختیار سے تجاوز ہے، اٹارنی جنرل اور حامی وکلاء اصل دائرہ اختیار میں پارلیمنٹ کی مداخلت کے دفاع میں ناکام رہے، پارلیمنٹ نے اپیل کا حق دے کر ایک نیا دائرہ اختیار متعارف کرایا۔
جسٹس یحییٰ آفریدی کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ سادہ قانون سازی سے سپریم کورٹ کے اصل دائرہ اختیار میں اپیل شامل نہیں کرسکتی۔