مفتی منیب الرحمان کا کہنا ہے کہ ہمارے آئین اور قانون سے اقلیتوں کا لفظ نکال دینا چاہئے اور ہر فرد کو اس کے مذہب کے ساتھ پاکستانی قرار دیا جائے، پاکستان واحد ملک ہے جہاں اقلیتوں کیلئے اسمبلیوں میں مخصوص نشستیں ہیں۔ انیق احمد کہتے ہیں کہ ہم سب کو دنیا کے سامنے پاکستان کے مثبت امیج کو پیش کرنا چاہئے، رواداری کا مطلب ہے کہ ضبط کو ضابطہ بنایا جائے۔
جامعہ کراچی میں قومی کانفرنس بعنوان ’پاکستان میں بین المذاہب ہم آہنگی‘ کا انعقاد کیا گیا، جس سے وفاقی وزیر مذہبی امور انیق احمد، مفتی منیب الرحمان سمیت دیگر اہم شخصیات نے خطاب کیا۔
وفاقی وزیر مذہبی امور انیق احمد نے کہا کہ واقعہ جڑانوالہ کو پورے پاکستانی معاشرے نے محسوس کیا اور ہر طبقہ فکر وہاں گیا اور احتجاج کیا جو زندہ معاشرے کی پہچان اور منہ بولتا ثبوت ہے، اگر ہم 97 فیصد ہوکر اپنے غیر مسلم بھائیوں کی حفاظت نہ کرسکیں تو یہ کتنی شرم کی بات ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ بھارت کے شہر منی پور میں 150 مسیحی بھائیوں کو ذبح کیا گیا اور یہ قتل بھارتی حکومت نے کرائے جبکہ جڑانوالہ واقعے میں ایک بھی قتل نہیں ہوا لیکن اس کے باوجود پاکستان کے خوبصورت چہرے کو بھارتی نیشنل میڈیا بدنام کررہا ہے، جڑانوالہ میں ہمارے علماء نے مسیحی برادری کیلئے مساجد کے دروازے کھول دیئے تھے جو لائق تحسین ہے، ہم دنیا بھر میں جہاں بھی جائیں ہم سب کو دنیا کے سامنے پاکستان کے مثبت امیج کو پیش کرنا چاہئے، رواداری کا مطلب ہے کہ ضبط کو ضابطہ بنایا جائے، کسی کی بات کو سنے بغیر پہلے سے ہی نتائج اخذ نہ کئے جائیں، جتنا میں پاکستانی ہوں اتنا ہی یہاں پر رہنے والا ہر فرد، خواہ اس کا تعلق کسی بھی مذہب سے ہو پاکستانی ہے۔
انیق احمد کا کہنا ہے کہ پاکستان کو بدنام کرنے کی سازش روکنے کی ذمہ داری ہم سب پر عائد ہوتی ہے، عوام اپنے طور پر فیصلہ نہ کریں اور نہ ہی خود اپنی عدالت لگائیں، ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم ایسے کام کریں جس سے معاشرے کی خوبصورتی میں اضافہ ہو۔
چیئرمین، مہتمم دارالعلوم نعیمیہ مفتی منیب الرحمان نے کہا کہ ہمارے آئین اور قانون سے اقلیتوں کا لفظ نکال دینا چاہئے اور ہر فرد کو اس کے مذہب کے ساتھ پاکستانی قرار دیا جائے، اس سے اس میں ملکیت اور اپنائیت کا احساس پیدا ہوگا، من حیث القوم ہم ایک ملامتی قوم بن چکے ہیں، اس لئے دنیا بھر میں اپنی رسوائی کا انتظام خود کرتے ہیں، کوئی واقعہ ہوجائے جیسے جڑانوالہ تو 50 چینل دکانیں کھول کر بیٹھ جائیں گے اور پاکستان کو ملامت کریں گے۔
ان کا کہنا ہے کہ ایسے واقعات بالکل رونماء نہیں ہونے چاہئیں لیکن کیا امریکا، کینیڈا، فرانس، برطانیہ، ہالینڈ اور آسٹریلیا میں مساجد پر حملے نہیں ہوئے کیا وہاں کی میڈیا نے کہا کہ ان ممالک میں اقلیتیں محفوظ نہیں، وہاں اس کو مذہب سے جوڑے بغیر مجرمانہ کارروائی قرار دے کر قانون کے مطابق اس پر عملدرآمد کیا جاتا ہے جبکہ پاکستان میں اس کو مذہب سے جوڑ دیاجاتاہے جس سے پوری دنیا میں منفی تاثر جاتا ہے۔
مفتی منیب الرحمان نے مزید کہا کہ امریکا کی 435 کے ایوان نمائندگان میں مسلمانوں کیلئے ایک بھی مخصوص نشست نہیں، اسی طرح برطانیہ میں 4 ملین مسلم مقیم ہیں اور 650 کے پارلیمنٹ میں مسلمانوں کیلئے ایک بھی مخصوص نشست نہیں، انڈیا میں 20 کروڑ مسلمانوں کیلئے پارلیمنٹ کی ایک بھی مخصوص نشست نہیں جبکہ پاکستان میں غیرمسلموں کیلئے قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں مخصوص نشستیں موجود ہیں لیکن اس کے باوجود پاکستان کا مثبت امیج پیش نہیں کیا جاتا، پاکستان کی عزت، ناموس و افتخار کو ہر سطح پر بلند کرنے کی ضرورت ہے، جس کیلئے اس ملک میں رہنے والے ہر فرد کو اپنا اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔
جامعہ کراچی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر خالد محمود عراقی نے کہا کہ ہمیں اپنے رویوں میں تبدیلی اور انسانیت کے رشتے کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے، ایسے دستور کا کوئی فائدہ نہیں جس پر عمل نہ ہو، اقلیتوں کے حوالے سے اکثر قائد اعظم محمد علی جناح کی 11 اگست کی تقریر کا حوالہ دیا جاتا ہے لیکن بدقسمتی سے ہم نے تو قائد کو ہی بھلادیا ہے، وقت کا ہمیشہ سے تقاضہ رہا ہے کہ دنیا میں بسنے والے تمام لوگ ایک دوسرے کے عقائد، خیالات، رہن سہن اور طرز فکر کو مثبت انداز میں دیکھیں اور امن وسلامتی کے اصولوں پر عمل پیرا رہتے ہوئے اس دنیا کو گہوارہ امن بنائیں۔
کارڈینینل جوزف کوٹس نے اپنے خطاب میں کہا کہ بین المذاہب ہم آہنگی وقت کی اہم ضرورت ہے، ہمیں ایک دوسرے کی رائے سننے اور احترام کرنے کی ضرورت ہے، جس کیلئے مکالمے کے کلچر کو فروغ دینا ضروری ہے، بین المذاہبی ہم آہنگی کے حوالے سے کانفرنسز، سیمینارز کا انعقاد وقت کی اہم ضرورت ہے۔
رئیس کلیہ فنون و سماجی علوم جامعہ کراچی پروفیسر ڈاکٹر شائستہ تبسم نے کہا کہ تنگ نظری ہی تشدد کا راستہ کھولتی ہے، وسیع النظری اور وسیع القلبی کے ذریعے ہی ہم بین المذاہب ہم آہنگی کو فروغ دے سکتے ہیں۔
بشپ فریڈرک جون نے کہا کہ بین المذاہب ہم آہنگی کی ضرورت صرف پاکستان میں نہیں بلکہ پوری دنیا میں ہے، ہمیں اکثریت اور اقلیت کی اصطلاحات کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے اور ایک دوسرے کے خیالات اور جذبات کی قدر کرنی چاہئے، ہمیں ان لوگوں سے بات کرنے کی ضرورت ہے جن کی وجہ سے مسائل پیدا ہورہے ہیں۔
ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل سندھ کلپنا دیوی نے کہا کہ ہمیں مذہب کو اپنے مفادات کیلئے استعمال نہیں کرنا چاہئے، جس جگہ بھی مندر، امام بارگاہ، مسجد اور گرجا گھر کو جلایا جاتا ہے وہاں کے لوگوں کے دلوں اور سوچوں کو بھی جلایا جاتا ہے، ہمیں تقسیم ہونے کے بجائے آپس میں مل جل کر پاکستان کی ترقی کیلئے کام کرنا چاہئے۔
سرپرست اعلیٰ پاکستان سکھ کونسل سرداررمیش سنگھ نے کہا کہ تمام مذاہب انسانیت، محبت اور بھائی چارے کا پیغام دیتے ہیں، کرتاپور راہداری پوری دنیا اور بالخصوص پاکستان میں تمام مذاہب کے لئے ایک مثال ہے۔
ممبر آف کونسل اسلامک آڈیولوجی آف پاکستان ڈاکٹر محسن نقوی نے کہا کہ اگر ہم کسی بھی سطح پر بھی تقسیم ہیں توہم معاشرے میں مثبت کردار ادا نہیں کرسکتے، ہم اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ معاشرے نے ہمیں کیا دیا اور اس کو کیا لوٹا رہے ہیں۔