پشاور ہائیکورٹ نے پاکستان تحریک انصاف ( پی ٹی آئی ) کے انٹرا پارٹی الیکشن سے متعلق الیکشن کمیشن آف پاکستان ( ای سی پی ) کا فیصلہ معطل کرتے ہوئے حکم امتناع جاری کر دیا۔
منگل کے روز پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے انٹرا پارٹی الیکشن اور انتخابی نشان سے متعلق الیکشن کمیشن کے فیصلے کو پشاور ہائیکورٹ میں چیلنج کیا گیا تھا۔
پشاور ہائیکورٹ کے جسٹس کامران حیات میاں خیل نے پی ٹی آئی کی درخواست پر سماعت کی اور الیکشن کمیشن کا فیصلہ معطل کرتے ہوئے فیصلے پر حکم امتناع جاری کردیا جبکہ تمام فریقین کو نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب بھی طلب کر لیا۔
عدالت نے دلائل مکمل ہونے پر الیکشن کمیشن کے فیصلے پر حکم امتناع جاری کیا جبکہ عدالتی فیصلے کے مطابق کیس کا فیصلہ ہونے تک الیکشن کمیشن کا فیصلہ معطل ہوگا۔
عدالت نے کہا کہ چھٹیوں کے ختم ہونے کے بعد پہلے ڈبل بینچ میں کیس سنا جائے۔
سماعت کا احوال
پشاور ہائیکورٹ میں کیس کی سماعت کے دوران بیرسٹر علی طفر اور بیرسٹر علی گوہر عدالت میں پیش ہوئے اور موقف اختیار کیا کہ الیکشن کمیشن نے اختیارات سے تجاوز کیا، الیکشن کمیشن کے کہنے پر دو دسمبر کو پشاور میں پارٹی انتخابات کا انعقاد کرایا جس پر کمیشن نے اعتراض نہیں کیا لیکن کمیشن کو اعتراض یہ ہے کہ جس نے انتخابات کرائے اسکی تقرری قانونی نہیں۔
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ پی ٹی آئی پاکستان کی مقبول سیاسی جماعت ہے، انتخابی نشان واپس لینے کے بعد پارٹی غیر فعال ہو گئی، الیکشن کمیشن کا یہ فیصلہ غیر قانونی ہے، انتخابی نشان نہ ہونے سے پارٹی کیسے انتخابات میں حصہ لے سکتی ہیں، اسمبلیوں کی مخصوص نشسیتں بھی پارٹی کو نہیں ملیں گی۔
الیکشن کمیشن کورٹ آف لاء نہیں ہے، علی ظفر کے دلائل
جسٹس کامران حیات نے بیرسٹر علی ظفر سے استفسار کیا کہ کیا الیکشن کمیشن کا اعتراض تھا کہ جنرل سیکرٹری نے چیف الیکشن کمیشن کی تقرری کیسے کی جس پر بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ الیکشن کمیشن کا فیصلہ آئین کے آرٹیکل 17 کی خلاف ورزی ہے،آئین کا آرٹیکل 17 ایسوسی ایشن کی تنظیم سازی کا اختیار دیتا ہے۔
بیرسٹر علی ظفر کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن کا پارٹی کی اندرونی تقرریوں پر فیصلے کا اختیار نہیں، الیکشن ایکٹ 2017 کے مطابق پارٹی ہیڈ سات دن بعد سرٹیفکیٹ الیکشن کمیشن کو فراہم کرتا ہے، الیکشن کمیشن ایک پوسٹ آفس ہے جہاں پارٹی اپنے قانونی دستاویزات جمع کرواتی ہیں، اگر پارٹی سرٹیفکیٹ فراہم کر دے تو پھر الیکشن کمیشن کا اختیار بنتا ہے، الیکشن ایکٹ میں یہ کہی نہیں لکھا کہ الیکشن کمیشن از خود نوٹس لے کر تقریروں کو جواز بنا کر انتخابات کالعدم کریں اور نشان بھی واپس لے، قانون بنانے والوں نے الیکشن کمیشن کو یہ اختیار دیا ہی نہیں۔
علی ظفر کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ الیکشن کمیشن کو کہہ چکی کہ وہ کوئی کورٹ آف لا نہیں ہے۔
علی ظفر نے کہا کہ سیاسی جماعتیں سرکاری نہیں ہوتی، سیاسی جماعتیں عام شہریوں پر مبنی ہوتی ہیں، تحریک انصاف کے 8لاکھ سے زیادہ رجسٹرڈ ممبرز ہے۔
یہ پارٹی انتخابات کو چیلنج کرنے والے لوگ کون ہیں ؟ جسٹس کامران کا استفسار
جسٹس کامران حیات نے استفسار کیا کہ یہ پارٹی انتخابات کو چیلنج کرنے والے لوگ کون ہیں جس پر علی ظفر نے بتایا کہ جنہوں نے پارٹی انتخابات کو متنازعہ بنایا چیلنج کیا وہ پارٹی کے ممبر ہی نہیں ہیں۔
جسٹس کامران نے ریمارکس دیئے کہ الیکشن کمیشن کہہ رہی ہے کہ آپ نے چیف الیکشن کمشنر کی تقرری اپنے پارٹی آئین کے مطابق نہیں کی، اگر ایسا ہوتا ہے تو اس میں کیا سزا تعین ہے جس پر علی ظفر نے کہا کہ اگر ایسا ہوتا ہے تو اس میں پارٹی کو دو لاکھ جرمانے کی سزا کا تعین کیا گیا ہے۔
جسٹس کامران حیات نے استفسار کیا کہ آپ بتا دیں پارٹی رولز میں انتخابات کے حوالے سے کیا لکھا ہوا ہے جس پر علی ظفر نے بتایا کہ ہماری پارٹی رولز کے مطابق چیرمین کا انتخاب خفیہ بلیٹ پیپر سے ہوتا ہے۔
جسٹس کامران حیات نے ریمارکس دیئے کہ اگر پارٹی نے خلاف ورزی کی ہے تو الیکشن کمیشن کو یہ اختیار کس قانون نے دیا ہے جس پر علی ظفر نے کہا کہ
الیکشن کمیشن کو پارٹی کے اندرونی معاملات میں مداخلت کا اختیار نہیں۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل کی مخالفت
دوران سماعت ایڈیشل اٹارنی جنرل نے الیکشن کمیشن کا فیصلہ معطل کرنے کی درخواست کی مخالفت کی اور موقف اختیار کیا کہ یہ کیس سنگل بینچ کا نہیں ہے ، 2 رکنی بینچ تشکیل دیا جائے، انتخابی نشان کا فیصلہ 10 جنوری کو ہونا ہے، عدالتی چھٹیاں 8 جنوری کو ختم ہوں گی، اسکے بعد کیس کو سنا جائے۔
جسٹس کامران حیات نے ریمارکس دیئے کہ ایک سیاسی جماعت کو آپ نے انتخابات سے باہر کر دیا، اس ملک میں کتنی سیاسی جماعتیں ہیں، اور کتنے کیس الیکشن کمیشن کے پاس پڑے ہے سب کا فیصلہ کریں پھر، اس طرح اگر پیپلز پارٹی سے تیر، مسلم لیگ ن سے شیر اور جماعت اسلامی سے نشان لے لیا جائے تو پیچھے کیا رہ جاتا ہے۔
جسٹس کامران نے ریمارکس دیئے کہ اگر آپ لوگ نہ آتے تو کیا پتہ ہم یہ کیس چھٹیوں کے بعد تک موخر کر دیتے، بینچ بنانا چیف جسٹس کی صوابدید ہے، آپ سب آئے اب اتنی بحث ہو گئی کچھ تو آرڈر کرنا پڑے گا، ان ریمارکس پر پی ٹی آئی کی خاتون وکیل کی ہنسی نکل پڑی جس پر ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل نے غصہ اور اعتراض کیا اور کہا کہ یہ عدالت ہے خاص نوعیت کے کیس پر بحث ہو رہی ہے کوئی مذاق نہیں۔
یہ بھی پڑھیں ۔تحریک انصاف کے انٹرا پارٹی انتخابات کالعدم ، ’’بلے‘‘ کے انتخابی نشان سے بھی محروم
درخواست کا متن
اس سے قبل پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے دائر درخواست میں موقف اختیار کیا تھا گیا کہ الیکشن کمیشن کے پاس پارٹی انتخابات کرانے کے طریقے سے متعلق فیصلہ دینے کا اختیار نہیں اور جن لوگوں نے پی ٹی آئی انٹرا پارٹی انتخابات کو چلینج کیا وہ پارٹی ممبر بھی نہیں۔
پی ٹی آئی کی جانب سے درخواست میں الیکشن اور انٹرا پارٹی انتخابات کو چیلنج کرنے والے درخواست گزاروں کو بھی فریق بنایا گیا۔
درخواست میں استدعا کی گئی کہ الیکشن کمیشن نے فیصلے میں پی ٹی آئی انٹر اپارٹی انتخابات کو کالعدم قرار دیتے ہوئے انتخابی نشان بلا بھی واپس لے لیا ہے، عدالت سنئیر ججز پر مشتمل بینچ بنائے اور آج ہی درخواست سماعت کے لیے مقرر کرے۔
یاد رہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے 22 دسمبر کو تحریک انصاف کے انٹرا پارٹی انتخابات کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے ’’بلے ‘‘ کا انتخابی نشان واپس لے لیا تھا۔
بیرسٹر گوہر کی میڈیا ٹاک
پشاور ہائیکورٹ کے باہر میڈیا سےگفتگو کرتے ہوئے پی ٹی آئی کے سابق چیئرمین بیرسٹر گوہر کا کہنا تھا کہ ہائیکورٹ میں موسم سرما کی تعطیلات ہیں، سنگل بینچ بھی الیکشن کمیشن کا فیصلہ معطل کرسکتا ہے، آج ہی کیس کو سماعت کے لئے مقرر کرنے کی درخواست کی ہے۔
بیرسٹر گوہر نے بتایا کہ سپریم کورٹ کہہ چکی سیاسی جماعت کا حق ہے کہ اپنی پارٹی نشان سے الیکشن لڑے، اس الیکشن کے بعد صدر اور سینٹ کا الیکشن بھی ہونا ہے، سیاسی پارٹی سے نشان لے لیا جائے تو وہ ختم ہو جائے گی۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں لیول پلیئنگ فیلڈ تو کیا کچھ بھی نہیں دیا جا رہا ہے۔