پاکستان میں انٹرا پارٹی انتخابات سے مراد کسی سیاسی جماعت کے اندر رہنماؤں اور نمائندوں کے انتخاب کا عمل ہے یہ عام انتخابات سے مختلف ہے جہاں عوام مختلف جماعتوں کے امیدواروں کو ووٹ دیتے ہیں۔ انٹرا پارٹی انتخابات پارٹی کی داخلی جمہوریت اور گورننس کا ایک اہم پہلو ہوتا ہے۔یہ جماعت کا اندورنی معاملہ الیکشن کمیشن کے قوانین کے تحت ہوتا ہے مثلاً کوئی سیاسی جماعت اپنی پارٹی میں کچھ رد و بدل کرتی ہے کوئی نئی تبدیلیاں لاتی ہے یعنی کوئی نیا عہدہ نکالتی ہے یا پھر کسی کو نئے عہدے پر فائز کرتی ہے تو اس کا نوٹیفکیشن الیکشن کمیشن میں جمع کروانا ہوتا ہے تاکہ تمام ریکارڈ محفوظ کیا جائے ۔
پی ٹی آئی کے پارٹی آئین سنہ 2017 کے مطابق تمام پارٹی عہدیداران چار سال کے لیے منتخب ہوئے جن کی مدت 13 جون 2021 کو ختم ہو گئی تھی الیکشن کمیشن نے 24 مئی کو انٹرا پارٹی الیکشن کیلئے نوٹس بھیجا۔13 جون سنہ 2021 سے پاکستان تحریک انصاف کے انٹرا پارٹی الیکشن التوا کا شکار تھےآٹھ جون 2022 کو پی ٹی آئی نے پارٹی آئین 2019 میں ترمیم کی اور 10 جون 2022 کو پی ٹی آئی نے انٹرا پارٹی الیکشن کروانے کے بعد منتخب ممبران کی لسٹ (سرٹیفیکیٹ) الیکشن کمیشن میں جمع کروائی۔انٹرا پارٹی انتخابات کروانے کے بعد 2022 میں ہی پی ٹی آئی کے پارٹی آئین میں ایک بار پھر ترمیم کی گئی اور پی ٹی آئی کے اس وقت کے چیف الیکشن کمشنر جمال انصاری نے الیکشن کمیشن کو بتایا کہ ہم نے آئین میں تبدیلی کی ہے۔ تبدیلی کے بعد پی ٹی آئی وکیل بیرسٹر گوہر علی نے کہا ہم نے ترمیم واپسی لے لی ہےاورایک نیا سرٹیفیکیٹ الیکشن کمیشن میں جمع کروایا گیا۔
الیکشن کمیشن کے چار ارکان پر مشتمل بینچ نے اس سرٹیفیکیٹ سے اتفاق نہیں کیا اور پی ٹی آئی کے انتخابات کو کالعدم قرار دے دیاالیکشن کمیشن نے ن لیگ سمیت 16 سیاسی پارٹیوں کو انٹرا پارٹی الیکشن نہ کروانے اور الیکشن ایکٹ کی دفعات 209 اور 210 کی خلاف ورزی پر زیر دفعہ 215(4) کے تحت شو کاز نوٹس جاری کیے تھے۔
پاکستان تحریک انصاف کے 10جون 2022 کے انٹرا پارٹی انتخابات کالعدم قرار دیئے اور 20 دن کے اندر انٹرا پارٹی الیکشن کروانے کی مہلت دے دی گئی 28 نومبر کو پی ٹی آئی نے انٹرا پارٹی الیکشن کروایا اور 2 دسمبر کو سرٹیفکیٹ الیکشن کمیشن میں جمع کروا دیا۔ پاکستان تحریک انصاف نے کہاں الیکشن کروایا کون کون سے امیدوار تھے کس کس نے ووٹ کاسٹ کیا کس نے بائیکاٹ کیا کس نے کتنے ووٹ سے برتری حاصل کی نہ ووٹر لسٹ جاری ہوئی نہ امیدواروں کی فہرست جاری ہوئی یہ تمام چیزیں کسی کے علم میں نہیں ہیں الیکشن کمیشن میں جمع کروائے گئے سرٹیفکیٹ میں بیرسٹر گوہر علی چیئرمین پی ٹی آئی مقرر ہوگئے ۔ الیکشن کمیشن نے نئے سرٹیفکیٹ اور پرانے تحریک انصاف کے جمع کروائے گئے سرٹیفکیٹ کو دیکھا تو معاملہ ٹوٹل الٹ تھا۔ پی ٹی آئی کے پہلے جمع کروائے گئے سرٹیفکیٹ کے مطابق جنرل سیکرٹری اسد عمر تھا اور چیف الیکشن کمیشنر جمال اکبر انصاری تھا اب اصولی طور پر جنرل سیکرٹری اسد عمر ہے تو چیف الیکشن کمشنر کو وہی مقرر کرتا لیکن چیف الیکشن کمشنر کی تقرری عمر ایوب نے کر دی جس کے پاس پارٹی کی کوئی قانونی حیثیت نہیں تھی۔
عمران خان نے اسد عمر کے پارٹی اور پارٹی عہدہ چھوڑنے پر عمر ایوب کو جنرل سیکرٹری مقرر کر دیا مگر اس کا سرٹیفکیٹ الیکشن کمیشن میں جمع نہیں کروایا نہ ہی پارٹی آئینی تقاضے پورے کئے گئے وہ پارٹی آئین کے مطابق بھی جنرل سیکرٹری مقرر نہیں کیا گیا تھاالیکشن کمیشن میں جمع کروائے گئے سرٹیفکیٹ کے مطابق جنرل سیکرٹری اسد عمر ہی تھادوسرا چیف الیکشن کمیشنر جمال اکبر انصاری تھا تو نیاز اللّٰہ نیازی انٹرا پارٹی الیکشن کس حثیت سے کروا سکتے تھے؟ پاکستان تحریک انصاف کے انٹرا پارٹی الیکشن میں اگرجنرل سیکرٹری اسد عمر اور جمال اکبر انصاری سب کے کاغذات نامزدگی جمع کرتے پھر الیکشن کمیشن میں سرٹیفکیٹ قابل قبول ہونا تھا لیکن پی ٹی آئی نے ان لوگوں سے کام کروایا جن کے پاس پارٹی قوانین و الیکشن کمیشن قوانین کے مطابق کوئی اتھارٹی نہیں تھی۔
نیاز اللّٰہ نیازی کو بطور چیف الیکشن کمشنر مقرر کرنا پی ٹی آئی آئین کے آرٹیکل 9 کی خلاف ورزی ہےآئینی طور پر عمر ایوب کو جنرل سیکرٹری مقرر نہیں کیا گیا نہ پارٹی آئینی باڈی نے عمر ایوب کو جنرل سیکرٹری مقرر کیا بس برائے نام جنرل سیکرٹری کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا پہلا غلط فیصلہ پی ٹی آئی آئین کے سیکشن 9 کے مطابق چیف الیکشن کمشنر کے عہدے کی معیاد 5 سال ہے تو نیاز اللّٰہ نیازی کو مقرر کر کے اپنی پارٹی کیخلاف چلے گئے دوسرا فیڈرل چیف الیکشن کمشنر کو عہدے سے ہٹانے کیلئے نیشنل کونسل کی دو تہائی اکثریت درکار ہوتی ہے جو کہ پی ٹی آئی کی طرف یہ آئینی تقاضا پورا نہیں کیا گیا تیسرا جمال اکبر انصاری چیف الیکشن کمشنر پی ٹی آئی کو عہدے سے ہٹایا گیا نہ ہی جمال اکبر انصاری کے مستعفیٰ ہونے کا ریکارڈ موجود ہے اور نہ ہی 28 نومبر کو ہونے والے انٹرا پارٹی الیکشن میں چیف الیکشن کمشنر بنایا گیا۔
چیف الیکشن کمشنر تقرر کرنے کا 28 نومبر کا نوٹیفکیشن کوئی قانونی حیثیت نہیں رکھتا کیونکہ پی ٹی آئی کے تمام عہدیداران بشمول چیئرمین اپنی مدت مکمل کر چکے تھےپی ٹی آئی کے آئین کے تحت پارٹی کے عہدیداروں کی مدت میں اضافہ نہیں کیا جاسکتا پی ٹی آئی آئین کے تحت پارٹی چیئرمین بھی عہدیداروں کی مدت میں اضافہ نہیں کرسکتے۔ جب چیئرمین کو بھی اختیار نہیں تھا تو عمر ایوب جس کے پاس پارٹی قوانین کے مطابق عہدہ بھی نہیں تھا وہ کیسے کسی کی تقرری کر سکتا تھا؟