سپریم کورٹ نے سائفر کیس میں پاکستان تحریک انصاف ( پی ٹی آئی ) کے سابق چیئرمین عمران خان اور وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی کی درخواست ضمانت منظور کرلی۔
سپریم کورٹ نے ہائیکورٹ فیصلے کیخلاف اپیل منظور کرتے ہوئے دس دس لاکھ روپے کے مچلکوں کے عوض ضمانت منظور کی۔
جمعہ کے روز سپریم کورٹ کے قائم مقام چیف جسٹس سردار طارق مسعود کی سربراہی میں جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس اطہر من اللہ پر مشتمل تین رکنی بینچ نے عمران خان اور شاہ محمود قریشی کی سائفر کیس میں درخواست ضمانت پر سماعت کی۔
سماعت کا احوال
سماعت کے آغاز پر عدالت عظمیٰ نے فرد جرم کیخلاف درخواست پر حامد خان کی دلائل کیلئے مہلت کی استدعا منظور کی جبکہ وفاقی تحقیقاتی ادارے ( ایف آئی اے ) کے پراسیکیوٹر نے موقف اختیار کیا کہ شاہ محمود قریشی کی درخواست ضمانت پر نوٹس نہیں ہوا جس پر قائم مقام چیف جسٹس سردار طارق نے ریمارکس دیئے کہ ابھی نوٹس کر دیتے ہیں آپ کو کیا جلدی ہے۔
قائم مقام چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ پرانی چارج شیٹ کے خلاف درخواست غیرموثر ہوچکی، نئی فرد جرم پر اعتراض ہے تو ہائی کورٹ میں چیلنج کریں جس پر حامد خان نے استدعا کی کہ مناسب ہوگا آج ہائی کورٹ کے فیصلے کا انتظار کرلیا جائے جبکہ سلمان صفدر نے کہا کہ 6 بجے تک ٹرائل چلتا ہے،ایسا نہ ہو آئندہ سماعت تک مکمل ہوجائے، عدالتی اوقات کار کے بعد بھی ٹرائل چل رہا ہوتا ہے۔
قائم مقام چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ لوگ کہتے ہیں ہمارے کیس چلتے نہیں ، آپ کا چل رہا تو آپ کو اعتراض ہے، فرد جرم والی درخواست غیر مؤثر ہونے پر نمٹا دیتے ہیں جس پر سلمان صفدر نے کہا کہ حامد خان درخواست میں ترمیم کر چکے،اسے نئی درخواست کے طور پر لیا جائے۔
جسٹس منصور نے استفسار کیا کہ ترمیم شدہ درخواست بھی ہائیکورٹ سے پہلے ہم کیسے سن سکتے ہیں؟۔
وکیل درخواست گزار نے کہا کہ ٹرائل کورٹ نے جلد بازی میں 13 گواہان کے بیانات ریکارڈ کر لئے ہیں جس پر سردار طارق مسعود نے ریمارکس دیئے کہ اسپیڈی ٹرائل ہر ملزم کا حق ہوتا ہے، آپ کیوں چاہتے ہیں کہ ٹرائل جلدی مکمل نہ ہو؟۔
سلمان صفدر نے کہا کہ ان کیمرا ٹرائل کیخلاف درخواست آج ہائی کورٹ میں بھی زیرسماعت ہے، دوسری درخواست فرد جرم کیخلاف ہے، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ جو فرد جرم چیلنج کی تھی وہ ہائی کورٹ ختم کرچکی ہے، نئی فرد جرم پر پرانی کارروائی کا کوئی اثر نہیں ہوگا۔
حامد خان نے کہا کہ ٹرائل اب بھی اسی چارج شیٹ پر ہو رہا ہے جو پہلے تھی۔
نوٹس جاری
عدالت عظمیٰ نے شاہ محمود کی درخواست پر حکومت اور ایف آئی اے کو آج کیلئے ہی نوٹس جاری کیا جبکہ سرکاری وکیل کو شاہ محمود کی درخواست ضمانت پر بھی آج ہی دلائل دینے کی ہدایت کی۔
سابق چئیرمین پی ٹی آئی کی درخواست ضمانت پر دلائل
سابق چئیرمین پی ٹی آئی کی درخواست ضمانت پر سلمان صفدر نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ سائفر کیس میں ایف آئی آر 17 ماہ کی تاخیر سے درج ہوئی، سیکرٹری داخلہ یوسف نسیم کھوکھر نے ایف آئی آر درج کرائی، پہلے مؤکل کیخلاف فارن فنڈنگ کیس بنانے کی کوشش ناکام ہوئی، توشہ خانہ کیس میں سزا معطلی ہوئی ، اسی شام سائفر میں گرفتاری ڈال دی۔
سلمان صفدر نے کہا کہ سائفر میں طلبی کے نوٹس 7 ماہ تک لاہور ہائیکورٹ سے معطل رہے، ایف آئی اے نے حکم امتناع کیخلاف کوئی کوشش ہی نہیں کی۔
قائم مقام چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ حکم امتناع تو آپ نے لیا ہوا تھا پھر تاخیر تو آپ کے سبب ہوئی جس پر سلمان صفدر نے کہا کہ طلبی کے نوٹسز میں کوئی ٹھوس چیز تھی ہی نہیں اس لئے معطل ہوئے۔
ایف آئی آر میں حقائق درست بیان نہیں ہوئے، وکیل پی ٹی آئی
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ دفتر خارجہ صرف سائفر پر وزیراعظم کو بریفنگ دے سکتا ہے، دفتر خارجہ نے سائفر کی کاپی وزیراعظم کے حوالے کیسے کی؟ جس پر وکیل نے بتایا کہ دفتر خارجہ ایسا کر ہی نہیں سکتا، ایف آئی آر میں حقائق درست بیان نہیں ہوئے۔
سلمان صفدر نے کہا کہ اعظم خان پر میٹنگ منٹس اور مندرجات خلاف حقائق تحریر کرنے کا الزام ہے، ایف آئی اے کے مطابق تحقیقات کے بعد مقدمہ درج کیا گیا ہے، ایف آئی آر میں کردار کے تعین کے باوجود اعظم خان گرفتار ہوئے نہ اسد عمر۔
جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ سوال یہ ہے ایف آئی اے کو کیسے معلوم ہوا کہ بنی گالہ میں میٹنگ ہوئی؟، جس پر سلمان صفدر نے کہا کہ یہ ایف آئی اے کا افسر ہی بتا سکتا ہے، سائفر وزارت خارجہ سے آیا ، پراسیکیوشن کے مطابق سیکیورٹی سسٹم رسک پر ڈالا، آفیشل سیکرٹ ایکٹ کا دائرہ وسیع کرکے سابق وزیراعظم پر لاگو کیا گیا۔
ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ سائفر کا مقدمہ بنا، وکیل پی ٹی آئی
سلمان صفدر نے کہا کہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ فوج کے حوالے سے ہے جو ملکی دفاع سے جڑا ہے، ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ سائفر کا مقدمہ بنا ہے، ماضی میں ایکٹ حساس معلومات دشمن ممالک کو دینے والے سابق فوجی افسران پر لگا، سائفر کے خفیہ کوڈز کبھی سابق وزیراعظم کے پاس تھے ہی نہیں۔
جسٹس اطہر نے ریمارکس دیئے کہ وزارت خارجہ سائفر سے حکومت کو آگاہ کرتی ہے تاکہ خارجہ پالیسی میں مدد ملے جبکہ جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ کا مقصد ہی یہ ہے کہ حساس معلومات باہر نہ جاسکیں، سفارتی معلومات بھی حساس ہوتی ہیں لیکن ان کی نوعیت مختلف ہوتی ہے۔
سلمان صفدر نے کہا کہ امریکا میں پاکستانی سفیر اسد مجید نے سائفر حساس ترین دستاویز کے طور پر بھیجا جس پر جسٹس منصور نے ریمارکس دیئے کہ اس بات پر تو آپ متفق ہیں کہ حساس معلومات شیئر نہیں ہوسکتیں۔
سلمان صفدر نے سوال اٹھایا کہ دیکھنا یہی ہے کہ حساس معلومات شیئر ہوئی بھی ہیں یا نہیں؟ سابق وزیراعظم کیخلاف سزائے موت یا عمر قید کی دفعات عائد ہی نہیں ہوتیں۔
قائم مقام چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ سائفر کیس سے شیئر نہیں کیا لیکن اسے آن ایئر تو کیا ہی گیا ہے جس پر سلمان صفدر نے بتایا کہ وزارت خارجہ سے سائفر اعظم خان کو بطور پرنسپل سیکرٹری موصول ہوا، جس میٹنگ میں سائفر کا الزام ہے وہ 28 تاریخ کو ہوئی تھی، چالان کے مطابق جس جلسے میں سائفر لہرانے کا الزام ہے وہ 27 تاریخ کو ہوا۔
سائفر کو عوام میں زیربحث نہیں لایا جا سکتا، جسٹس اطہر من اللہ
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ اصل سائفر تو وزارت خارجہ میں ہے ، اگر وہ باہر گیا تو یہ ان کا جرم ہے، سائفر کو عوام میں زیربحث نہیں لایا جا سکتا، وکیل نے بتایا کہ شاہ محمود نے تقریر میں کہا وزیراعظم کو سازش کا بتا دیا ہے ، حلف کا پابند ہوں، اس بیان کے بعد بھی شاہ محمود قریشی 125 دن سے جیل میں ہیں۔
وزیرخارجہ سیانا تھا، اس نے وزیراعظم کو آگے کر دیا، قائم مقام چیف جسٹس
دوران سماعت سلمان صفدر نے سابق وزیراعظم اور وزیر خارجہ کا جلسے میں خطاب پڑھ کر سنایا جس پر جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ بہتر ہو گا آپ دلائل ضمانت تک محدود رکھیں، پوری دنیا میں سفیر اپنے ممالک کو سائفر بھیجتے ہیں ، انہیں کبھی عوام میں زیر بحث نہیں لایا جائے۔
سلمان صفدر نے کہا کہ سائفر کس نے لکھا اور اس میں کیا ہے ؟ یہ جلسے میں نہیں بتایا گیا، جسٹس سردار طارق نے شاہ محمود قریشی کی تقریر کا متن سن کر ریمارکس دیئے کہ وزیرخارجہ سیانا تھا، اس نے وزیراعظم کو آگے کر دیا، وزیرخارجہ نے وزیراعظم کو کہہ دیا تم جانو تمہارا کام جانے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ الیکشن آنے والے ہیں ، سابق چیئرمین پی ٹی آئی ایک سیاسی لیڈر ہیں، یہ بتائیں کیا ان کے باہر آنے سے سوسائٹی کو کوئی خطرہ ہے؟ دفتر خارجہ سائفر کسی کو بھیج ہی نہیں سکتا، اگر ایسا ہوا ہے تو غلطی دفتر خارجہ سے ہوئی ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ کیا وزیراعظم کے سیکرٹری بھی سائفر کی کاپی پڑھ سکتے ہیں؟۔
بعدازاں، عدالت نے سلمان صفدر کو اعظم خان کا بیان پڑھنے کی ہدایت کی۔
سلمان صفدر نے کہا کہ سابق وزیراعظم نے جلسے میں کہا تھا میرے پاس یہ خط سازش کا ثبوت ہے، جلسے میں کہیں نہیں کہا کہ سائفر میں کیا ہے اور کہاں سے آیا ہے؟ ایک طرف کہتے ہیں سائفر پبلک کیا، ساتھ ہی کہتے ہیں ان کیمرا ٹرائل ہونا چاہئے، دفعہ 164 کا بیان ملزم کا اعترافی بیان ہوتا ہے، اعظم خان کے اہلخانہ نے ان کی گمشدگی کا مقدمہ درج کروایا تھا، اعظم خان 2 ماہ لاپتہ رہے، یہ اغواء برائے بیان کا واقعہ ہے۔
اغواء برائے تاوان تو سنا تھا اغواء برائے بیان کیا ہوتا ہے؟ قائم مقام چیف جسٹس
قائم مقام چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اغواء برائے تاوان تو سنا تھا اغواء برائے بیان کیا ہوتا ہے؟ جس پر سلمان صفدر نے کہا کہ میرے لئے سب سے آسان الفاظ اغواء برائے بیان کے ہی تھے، چیف جسٹس نے استفتسار کیا کہ اغواء برائے بیان بھی اصطلاح ہے؟۔
جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ کیا تفتیشی افسر نے اعظم خان کی گمشدگی پر تحقیقات کیں؟ جس پر سلمان صفدر نے بتایا کہ اعظم خان کا بیان دباؤ کا نتیجہ ہے ، تفتیشی نے کوئی تحقیقات نہیں کیں، اعظم خان نے واپس آتے ہی سابق وزیراعظم کےخلاف بیان دے دیا۔
سلمان صفدر نے سوال اٹھایا کہ اگر کچھ غلط نہیں ہوا تھا تو سائفر پر ڈی مارچ جاری کیوں کیا گیا؟ جس پر جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ ہم کوئی آبزرویشن دیں گے تو خارجہ امور میں مداخلت ہوگی، بار بار کہہ رہے ہیں دلائل ضمانت کے میرٹس تک محدود رکھیں۔
تحریک انصاف کے وکیل نیاز اللہ نیازی
تحریک انصاف کے وکیل نیاز اللہ نیازی عدالت میں پیش ہوئے اور موقف اختیار کیا کہ ہمارے امیدواروں کو کاغذات جمع کرانے سے روکا جا رہا ہے جس پر قائم مقام چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اگر آپ کا امیدوار اشتہاری ہو تو کیا ہوگا جبکہ جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ کیا الیکشن کمیشن کو درخواست دی ہے؟۔
نیاز اللہ نیازی نے بتایا کہ الیکشن کمیشن کو بھی آ گاہ کر دیا ہے، ہماری درخواست سماعت کیلئے مقرر کی جائے، قائم مقام چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آج ہی درخواست سماعت کیلئے مقرر ہوگی۔
شاہ محمود قریشی کے وکیل کے دلائل
شاہ محمود قریشی کے وکیل علی بخاری نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ شاہ محمود قریشی پر سائفر رکھنے کا الزام ہے نہ ہی شیئر کرنے کا ، شاہ محمود پر واحد الزام تقریر کا ہے جس کا جائزہ عدالت پہلے ہی لے چکی، شاہ محمود قریشی 10 دن ریمانڈ پر رہے، کوئی برآمدگی نہیں ہوئی۔
جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ کیا شاہ محمود قریشی انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں؟ جس پر علی بخاری نے بتایا کہ شاہ محمود قریشی کے کاغذات نامزدگی آج جمع کرائیں گے، جس پر جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ انتخابات میں حصہ لینا ہی ضمانت کیلئے اچھی بنیاد ہے۔
ایف آئی اے پراسیکویٹر کے دلائل
ایف آئی اے پراسیکویٹر رضوان عباسی نے دلائل کا آغاز کیا تو جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ سائفر کی ایک ہی اصل کاپی تھی جو دفتر خارجہ میں تھی، سائفر دفتر خارجہ کے پاس ہے تو باہر کیا نکلا ہے؟ جس پر رضوان عباسی نے کہا کہ حساس دستاویز کو ہینڈل کرنے کیلئے رولز موجود ہیں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ رولز کی کتاب کہاں ہیں؟ جس پر پراسیکیوٹر نے بتایا کہ رولز خفیہ ہیں اس لئے عدالت کی لائبریری میں نہیں ہوں گے، جسٹس منصور علی نے استفسار کیا کہ رولز کیسے خفیہ ہوسکتے ہیں؟۔
پراسیکیوٹر نے کہا کہ یہ ہدایت نامہ ہے جو صرف سرکار کے پاس ہوتا ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ جس انداز میں ٹرائل ہو رہا ہے پراسیکیوشن خود رولز کی خلاف ورزی کررہی ہے، ، ڈی کوڈ ہونے کے بعد بننے والا پیغام سائفر نہیں ہوسکتا۔
قائمقام چیف جسٹس سردار طارق نے استفسار کیا کہ سائفر کا مطلب کیا ہے؟ جبکہ جسٹس اطہر نے ریمارکس دیئے کہ سائفر کا مطلب ہی کوڈڈ دستاویز ہے ، ڈی کوڈ ہونے کے بعد وہ سائفر نہیں رہتا اور جسٹس طارق نے ریمارکس دیئے کہ سائفر جب ڈی کوڈ ہوگیا تو سائفر نہیں رہا۔
جب حکومت چلی جائے تو وعدہ معاف گواہ بن جاتے ہیں، جسٹس اطہر من اللہ
جسٹس منصور علی شاہ نے ہدایت کی کہ سائفر کے حوالے سے قانون دکھائیں جبکہ جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ کیا سیکرٹری خارجہ نے وزیراعظم کو بتایا تھا کہ یہ دستاویز عام نہیں کرنی؟، تفتیشی افسر نے سیکرٹری خارجہ کے بیان میں کیا لکھا ہے؟۔
پراسیکیوٹر نے کہا کہ سیکرٹری خارجہ نے میٹنگ میں یہ بات کہی تھی جس پر جسٹس اطہر نے استفسار کیا کہ سیکرٹری خارجہ نے تحریری طور پر کیوں نہیں آگاہ کیا؟ جب حکومت چلی جائے تو وعدہ معاف گواہ بن جاتے ہیں، کیا سیکرٹری خارجہ نے تحریری طور پر کبھی وزیراعظم کو بتایا کہ ڈاکومنٹ پبلک نہیں ہوسکتا؟۔
جسٹس منصورعلی شاہ نے استفسار کیا کہ کیا تفتیشی افسر نے حساس دستاویزات پر مبنی ہدایت نامہ پڑھا ہے؟ ، تفتیشی رپورٹ میں کیا لکھا ہے سائفر کب تک واپس کرنا لازمی ہے؟ نہ پراسیکیوٹر کو سمجھ آ رہی ہے نہ تفتیشی افسر کو تو انکوائری میں کیا سامنے آیا ہے؟۔
قائمقام چیف جسٹس سردار طارق نے استفسار کیا کہ کیا گواہان کے بیانات حلف پر ہیں؟ جس پر پراسیکیوٹر نے کہا کہ گواہی حلف پر ہوتی ہے۔
کیا اعظم خان شمالی علاقہ جات گئے تھے؟ جسٹس اطہر من اللہ کا استفسار
جسٹس سردار طارق مسعود نے ریمارکس دیے کہ ریکارڈ کےمطابق گواہ کا بیان حلف پر نہیں ہے، کیا اعظم خان کی گمشدگی کی تحقیقات کی ہیں؟ جس پر تفتیشی افسر نے کہا کہ اعظم خان نے واپس آنے کے ایک ماہ بعد بیان دیا، قائم مقام چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ایک ماہ اعظم خان خاموش کیوں رہا؟ جبکہ جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ کیا اعظم خان شمالی علاقہ جات گئے تھے؟۔
رضوان عباسی نے بتایا کہ اعظم خان کے مطابق پی ٹی آئی کا ان پر دباؤ تھا، جس پر جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ عباسی صاحب ایسی بات نہ کریں جو ریکارڈ پر نہ ہو۔
قائمقام چیف جسٹس نے استسفار کیا کہ شہباز شریف نے کس دستاویز پر قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس کیا تھا؟ ، شہباز شریف نے کیوں نہیں کہا کہ سائفر گم گیا ہے؟ رضوان عباسی نے بتایا کہ قومی سلامتی کمیٹی اجلاس میں سائفر پیش ہوا تھا۔
سابق وزیراعظم پر جرم ثابت نہیں ہوا وہ معصوم ہیں، جسٹس اطہر من اللہ
جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ سائفر معاملے پر غیرملکی قوت کو کیسے فائدہ پہنچا؟ جبکہ جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ جو دستاویز آپ دکھا رہے ہیں اس کے مطابق تو غیر ملکی طاقت کا نقصان ہوا، کیا حکومت 1970ء اور 1977ء والے حالات چاہتی ہے؟ کیا نگران حکومت نے آپ کو ضمانت کی مخالفت کرنے کی ہدایت کی؟، ہر دور میں سیاسی رہنمائوں کے ساتھ ایسا کیوں ہوتا ہے؟، سابق وزیراعظم کے جیل سے باہر آنے سے کیا نقصان ہوگا؟، اس وقت سوال عام انتخابات کا ہے، اس وقت چیئرمین پی ٹی آئی نہیں عوام کے حقوق کا معاملہ ہے، عدالت بنیادی حقوق کی محافظ ہے، سابق وزیراعظم پر جرم ثابت نہیں ہوا وہ معصوم ہیں۔
جسٹس منصور نے استفسار کیا کہ پاک امریکا تعلقات خراب ہونے سے کسی اور ملک کا فائدہ ہوا اسکی تفتیش کیسے ہوئی؟ تعلقات خراب کرنے کا تو ایف آئی آر میں ذکر ہی نہیں جبکہ جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ کیا وزراء اعظم کو وقت سے پہلے نکالنے سے ملک کی جگ ہنسائی نہیں ہوتی؟ کیا وزراء اعظم کو وقت سے پہلے ہٹانے پر بھی آفیشل سیکرٹ ایکٹ لگے گا؟۔
آپ جو روز کر رہے ہیں اس پر بھی جگ ہنسائی ہو رہی ہے، جسٹس منصور علی شاہ
جسٹس منصور نے استفسار کیا کہ بھارت میں ہماری جگ ہنسائی تو کسی بھی وجہ سے ہوسکتی ہے کیا کریں گے؟، آپ جو روز کر رہے ہیں اس پر بھی جگ ہنسائی ہو رہی ہے۔