سپریم کورٹ کی جانب سے اسلام آباد ہائیکورٹ کے سابق جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی برطرفی کے کیس میں سابق ڈائریکٹر جنرل ( ڈی جی ) انٹرسروسز انٹیلی جنس ( آئی ایس آئی ) لیفٹیننٹ جنرل ( ر) فیض حمید سمیت دیگر کو نوٹسز جاری کردیے گئے۔
جمعہ کے روز سپریم کورٹ کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس امین الدین خان، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس حسن اظہر رضوی اور جسٹس عرفان سعادت پر مشتمل 5 رکنی بینچ نے سابق جج شوکت عزیز صدیقی کی برطرفی کے خلاف اپیل پر سماعت کی جسے عدالت عظمیٰ کی ویب سائٹ اور یوٹیوب پر براہ راست نشر بھی کیا گیا۔
سماعت کے دوران درخواستگزار شوکت عزیز صدیقی اور ان کے وکیل حامد خان سمیت دیگر عدالت عظمیٰ میں پیش ہوئے۔
گزشتہ سماعت
سپریم کورٹ کی جانب سے سابق جج شوکت عزیز صدیقی کی برطرفی کے خلاف اپیل پر جمعرات کے روز ہونے والی ہونے والی سماعت ایک روز تک ملتوی کر دی گئی تھی جبکہ دوران سماعت سابق جج کی جانب سے عدالت عظمیٰ کو یقین دہانی کروائی گئی تھی کہ وہ اپنی درخواست میں سابق ڈی جی آئی ایس آئی فیض حمید کو فریق بنائیں گے۔
یہ بھی پڑھیں۔ شوکت صدیقی کیس، سابق جج کی سپریم کورٹ کو فیض حمید کو فریق بنانے کی یقین دہانی
آج کی سماعت
سماعت کے آغاز پر سابق جج شوکت صدیقی کے وکیل حامد خان کی جانب سے جنرل ریٹائرڈ قمر باجوہ ، فیض حمید و دیگر کو فریق بنانے کی متفرق درخواست عدالت میں پیش کی گئی اور انہوں نے درخواست میں فریقین کے نام پڑھ کر سنائے۔
وہ کون تھا جس کی سہولت کاری کی گئی، وہ فریق کیوں نہیں ؟ چیف جسٹس
چیف جسٹس کی جانب سے حامد خان سے استفسار کیا گیا کہ کیا شوکت عزیز صدیقی کے الزامات درست ہیں؟ ، آپ سوچ کر دوبارہ پوچھ کر بتائیں، تقریر میں جن جنرلز پر الزام لگائے گئے وہ خود تو وزیراعظم نہیں بننا چاہ رہے تھے، وہ کون تھا جس کی سہولت کاری کی گئی، وہ فریق کیوں نہیں؟۔
یہ بھی پڑھیں۔ برطرفی کیس، شوکت صدیقی کی فیض حمید کو فریق بنانے کی استدعا
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ ابھی وقت ہے پھر سوچ کر مشورہ کر کے بتائیں کیا الزامات درست ہیں؟، شوکت عزیز صدیقی کو ان الزامات پر مبنی کی گئی تقریر پر برطرف کیا گیا، سوچ کر جواب دیں کہ کیا آپ کے الزمات درست ہیں،
کیا وہ جنرل جن کو آپ فریق بنانا چاہتے ہیں وہ خود 2018 کے انتخابات میں اقتدار میں آنا چاہتے تھے؟ اگر شوکت عزیز صدیقی کے الزامات درست ہیں تو وہ جنرلز کسی کے سہولت کار بننا چاہ رہے تھے۔
ان کے امیدواروں کا نشان جیپ تھا، شوکت صدیقی
شوکت عزیز صدیقی نے جواب دیا کہ میں نے تقریر میں اور کسی کا نام نہیں لیا تھا جس پر چیف جسٹس بولے کہ آپ جذباتی نہ ہوں جبکہ شوکت صدیقی نے کہا کہ میرے جتنے جذبات تھے 5 سال میں ٹھنڈے ہو چکے ہیں۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اگر ایک کو نااہل رکھنے کا کہا گیا تھا تو لانا کسے تھا؟ جس پر شوکت عزیز صدیقی نے جواب دیا کہ ان کے امیدواروں کا نشان جیپ تھا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ پورے آئین پاکستان کے خلاف کارروائی کی بات کر رہے ہیں، اگر کچھ جنرلز کسی کو فائدہ دینے کیلئے آئین کی پاسداری نہیں کررہے تھے تو بہت لوگ آئیں گے، آرٹیکل 184 تین کی درخواست میں عدالت کا اختیار شروع ہوچکا ہے، فوجی افسر کسی کو فائدہ دے رہے تھے تو وہ بھی اس جال میں پھنسے گا۔
حامد خان نے کہا کہ فوج شاید مرضی کے نتائج لینا چاہتی تھی، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ایک امیدوار کو سائیڈ پر اسی لیے کیا جاتا ہے کہ من پسند امیدوار جیتے جبکہ شوکت عزیز صدیقی بولے کے فوج نے اپنے امیداواروں کو جیپ کا نشان دلوایا تھا۔
کیا 70 سال سے جو ہورہا ہے اس کا ازالہ نہ کریں؟
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کبھی تو ملک میں سچ کی جانب جانا ہی ہے جبکہ حامد خان نے کہا کہ 70 سال سے ملک میں یہی ہو رہا ہے جس پر جسٹس جمال مندو خیل نے استفسار کیا کہ کیا 70 سال سے جو ہورہا ہے اس کا ازالہ نہ کریں؟۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ فوج ایک آزاد ادارہ ہے یا کسی کےماتحت ہے؟ ، فوج کو چلاتا کون ہے؟ جس پر حامد خان نے جواب دیا کہ فوج حکومت کے ماتحت ہے جبکہ چیف جسٹس سے ریمارکس دیئے کہ حکومت کوئی فرد نہیں ہے، جو شخص فوج کو چلاتا ہے اس کا بتائیں، جب آپ ہمارے پاس آئیں گے تو ہم آئین کے مطابق چلیں گے، یہ آسان راستہ نہیں ہے۔
ہم کسی ایک سائیڈ کی طرف داری نہیں کریں گے،چیف جسٹس
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ شوکت صدیقی نے جو سنگین الزامات لگائے ان کے نتائج بھی سنگین ہوں گے، سپریم کورٹ کو کسی کے مقاصد کے حصول کے لیے استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے جبکہ جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ ہمارے کندھے استعمال کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دئیے کہ ہم کسی ایک سائیڈ کی طرف داری نہیں کریں گے۔
وکیل نے صلاح الدین نے دلائل دیئے کہ سابق جج نے تحریری جواب میں جن لوگوں کا نام لیا ہم انھیں فریق بنا رہے ہیں، شوکت صدیقی نے عمران خان سمیت کسی اور کو فائدہ دینے کی بات نہیں کی، مفروضے پر ہم کسی کو فائدہ پہنچانے کیلئے کسی کا نام نہیں لے سکتے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اس کا مطلب ہے کہ شوکت عزیز صدیقی کے الزامات بھی مفروضے ہیں۔
ہم کسی ایک سائیڈ کی طرف داری نہیں کریں گے،چیف جسٹس
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ شوکت صدیقی نے جو سنگین الزامات لگائے ان کے نتائج بھی سنگین ہوں گے، سپریم کورٹ کو کسی کے مقاصد کے حصول کے لیے استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے جبکہ جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ ہمارے کندھے استعمال کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دئیے کہ ہم کسی ایک سائیڈ کی طرف داری نہیں کریں گے۔
وکیل صلاح الدین نے دلائل دیئے کہ سابق جج نے تحریری جواب میں جن لوگوں کا نام لیا ہم انھیں فریق بنا رہے ہیں، شوکت صدیقی نے عمران خان سمیت کسی اور کو فائدہ دینے کی بات نہیں کی، مفروضے پر ہم کسی کو فائدہ پہنچانے کیلئے کسی کا نام نہیں لے سکتے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اس کا مطلب ہے کہ شوکت عزیز صدیقی کے الزامات بھی مفروضے ہیں، اگر مسئلہ صرف پنشن کا ہے تو سرکار سے پوچھ لیتے ہیں آپ کو دے دیں گے، اگر پاکستان کی تاریخ درست کرنا چاہتے ہیں تو بتا دیں ہم آپ کی مدد کرنے کو تیار ہیں۔
اٹارنی جنرل کی طلبی
دوران سماعت چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو بھی طلب کیا اور ریمارکس دیئے کہ پنشن کا اٹارنی جنرل سے پوچھ لیتے ہیں شاید ویسے ہی دے دیں، حامد خان صاحب آپ کی کتاب کا حوالہ دیتا ہوں، آپ نے کیا لکھا تھا مولوی تمیز الدین کو ہٹانے سے فائدہ کس کو پہنچا؟ جس پر حامد خان نے بتایا کہ وہ لوگ تو آلہ کار ہوتے ہیں۔
جسٹس جمال نے استفسار کیا کہ کیا اب آلہ کار بننے کا سلسلہ بند ہو گیا یا نہیں؟ ہمیں پتہ کرنا چاہیے 50,60 سال پہلے کل اور آج کسے فائدہ پہنچایا گیا۔
چیف جسٹس نے مکالمہ کیا کہ حامد خان صاحب جہاں سے آئین کی حدود شروع ہو سیاست ختم ہو جاتی ہے، اس عدالت میں صرف آئین و قانون کی بات چلے گی، آپ ٹاک شوز میں کہہ دیتے ہیں ہمارا کیس نہیں لگتا، ہمت تو یہ ہے ہمارے منہ پر الزام لگائیں، ہم غلط ہوئے تو معذرت بھی کریں گے۔
یہ آئینی عدالت ہے یہاں آئینی زبان استعمال کریں، چیف جسٹس
جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ آپ کہتے ہیں یہاں لوگ آلے کے طور پر استعمال ہوتے ہیں، آلے کے طور پر استعمال کون کرتا ہے؟ ماضی میں جو ہوتا رہا وہ سب ٹھیک کرنا ہے جس پر حامد خان نے جواب دیا کہ آپ نے اسٹیبلشمنٹ کا نام لینے سے روکا جب کہ اس ملک کی حقیقت یہی ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ہمارے منہ میں الفاظ نہ ڈالیں، یہ آئینی عدالت ہے یہاں آئینی زبان استعمال کریں، الیکشن کی تاریخ سے متعلق سیاسی جماعت آئی تو 12 روز میں ہم نے فیصلہ کیا، ملک میں کب اتنی جلدی کیس کا فیصلہ ہوا ہے؟ ، ہم نے آئینی اداروں کو حکم دیا کہ انتخابات کرانے کی ذمہ داری پوری کریں، مسئلہ یہ ہے کوئی ادارہ اپنا کام کرنے کو تیار نہیں۔
شوکت صدیقی 62 سال سے اوپر ہو چکے واپس بحال تو نہیں ہو سکتے
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا شوکت صدیقی بیرسٹر صلاح الدین کا نام لکھ دیں تو آپ کو بھی نوٹس کر دیں؟ ، کس سیاسی جماعت کو نکالنے کے لیے یہ سب ہوا؟، جس پر بیرسٹر صلاح الدین احمد نے بتایا کہ جوڈیشل سسٹم پر دباؤ ڈال کر نواز شریف کو نکالا گیا، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اس سے فائدہ کس کا ہوا؟ کیا سندھ بار یا اسلام آباد بار کو فائدہ دینے کے لیے یہ ہوا؟۔
بیرسٹر صلاح الدین احمد نے کہا کہ ہم نے انکوائری کی درخواست کی تاکہ حقائق سامنے آئیں، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اگر سندھ بار شوکت صدیقی کی ہمدردی میں آئی کہ ان کو پنشن مل سکے تو یہ 184 تین کا دائرہ کار نہیں بنتا، ہمیں نہ بتائیں کہ انکوائری کریں یا یہ کریں، آپ معاونت کریں جو کرنا ہے ہم کریں گے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ ہمارے بندے کو استعمال کر کے کیوں کہا گیا کہ نواز شریف انتخابات سے پہلے باہر نہ آئے؟ ، جس پر صلاح الدین نے بتایا کہ یہ الزام فیض حمید پر ہے، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ بار کونسلز کیوں اس کیس میں آئیں؟ جس پر وکیل نے بتایا کہ ہم تحقیق چاہتے ہیں کہ کیا واقعی شوکت صدیقی کی برطرفی بانی پی ٹی آئی کو فائدہ پہنچانے کیلئے ہوئی۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ہم طریقے سے چلیں گے، شوکت صدیقی 62 سال سے اوپر ہو چکے واپس بحال تو نہیں ہو سکتے، سسٹم میں شفافیت لا رہے ہیں 10 سال پرانے کیسز مقرر کر رہے ہیں۔
جنرل باجوہ سے تو الزامات کی کوئی کڑی جڑ ہی نہیں رہی، چیف جسٹس
چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ جنرل باجوہ کا آپ نے فریقین میں پہلا نام لکھا، جنرل باجوہ سے تو الزامات کی کوئی کڑی جڑ ہی نہیں رہی، یہ تو سنی سنائی ہے کہ جنرل باجوہ کے ماتحت تھے تو انہی کی ہدایت پر کیا ہوگا، لوگ تو آج کل الزامات بھی لگا دیتے ہیں کسی کا نام لے کر کہ اس نے بھیجا ہے، جنرل فیض حمید کی حد تک تو ٹھیک ہے براہ راست الزام ہے۔
جسٹس قاضی فائز نے استفسار کیا کہ جنرل باجوہ کا کہاں براہ راست نام آتا ہے؟ عرفان رامے کا نام بھی غیرمتعلقہ ہے۔
حکمنامہ
چیف جسٹس کی جانب سے آج کی سماعت کا حکنامہ لکھوایا گیا کہ جس کے تحت سپریم کورٹ نے جنرل ریٹائرڈ فیض حمید ، سابق چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ انور کاسی ، بریگیڈیئرعرفان رامے اور سابق رجسٹرار سپریم کورٹ ارباب محمد عارف کو نوٹس جاری کیا گیا۔
جنرل ریٹائرڈ قمر جاوید باجوہ کو نوٹس جاری نہیں کیا گیا۔
سپریم کورٹ کی جانب سے کہا گیا کہ سنجیدہ نوعیت کے الزامات پر فیض حمید و دیگر کو جواب کا موقع دیا جاتا ہے، تین افراد جنہیں شوکت عزیز صدیقی نے فریق بنایا تھا ان کا براہ راست تعلق نہیں ، جنرل ریٹائرڈ قمر جاوید باجوہ ، بریگیڈیئر طاہر وفائی اور بریگیڈیئر فیصل مروت کو نوٹسز جاری نہیں کیے گئے۔
عدالت عظمیٰ کی جانب سے فریقین کو ان پر عائد الزامات پر مبنی مواد بھی فراہم کرنے کا حکم دیا گیا اور کہا گیا کہ ایک ہفتے میں ایڈریس ملنے کے بعد فریقین کو نوٹس ارسال کئے جائیں گے۔
سماعت ملتوی
بعدازاں، سپریم کورٹ نے شوکت عزیز صدیقی کی درخواست پر سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کر دی۔