سپریم کورٹ کی جانب سے سابق جج شوکت عزیز صدیقی کی برطرفی کے خلاف اپیل پر سماعت جمعہ ( کل ) تک ملتوی کر دی گئی جبکہ دوران سماعت سابق جج کی جانب سے عدالت عظمیٰ کو یقین دہانی کروائی گئی کہ وہ اپنی درخواست میں سابق ڈائریکٹر جنرل ( ڈی جی ) انٹرسروسز انٹیلی جنس ( آئی ایس آئی ) لیفٹینٹ جنرل (ر ) فیض حمید کو فریق بنائیں گے۔
جمعرات کے روز سپریم کورٹ کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس امین الدین خان، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس حسن اظہر رضوی اور جسٹس عرفان سعادت پر مشتمل 5 رکنی بینچ نے سابق جج شوکت عزیز صدیقی کی برطرفی کے خلاف اپیل پر سماعت کی جسے عدالت عظمیٰ کی ویب سائٹ اور یوٹیوب پر براہ راست نشر بھی کیا گیا۔
سماعت کا احوال
سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ درخواست پر گزشتہ سماعت کب ہوئی تھی؟، جس پر درخواستگزار سابق جج شوکت عزیز صدیقی کے وکیل حامد خان نے بتایا کہ کیس کی آخری سماعت 13 جون 2022ء کو ہوئی تھی۔
ملٹری کورٹس سے متعلق کیس کے بینچ بارے وضاحت
دوران سماعت چیف جسٹس نے ملٹری کورٹس سے متعلق بنائے گئے بینچ کے حوالے سے وضاحت دیتے ہوئے کہا کہ آج کل فون پکڑ کر صحافی بن جاتے ہیں، یوٹیوب چینل چلاتے ہیں، جسٹس طارق اور جسٹس اعجاز الاحسن نے بینچ میں شمولیت سے انکار کیا، میں نے کسی بھی جج کو بینچ سے نہیں ہٹایا۔
قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ کوشش ہوتی ہے کہ اتفاق رائے یا جمہوری طریقے سے کمیٹی میں چلیں، موبائل اٹھا کر صحافی بننے والوں کو سوچنا چاہئے کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر پر فیصلہ آچکا، جمہوریت کی جانب جا رہے ہیں، عدالت میں بھی جمہوریت آرہی ہے۔
اس موقع پر حامد خان نے کہا کہ جمہوریت اس وقت مشکل میں ہے جس پر چیف جسٹس نے مکالمہ کیا کہ آپ کی معاونت رہی تو جمہوریت چلتی رہے گی۔
حکومت کا اعتراض
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا حکومت اس درخواست کی مخالفت کرے گی؟ ، جس پر حکومت کی جانب سے درخواست کے قابل سماعت ہونے پر اعتراض کر دیا گیا۔
حامد خان کے دلائل
حامد خان نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی تقریر پڑھ کر سنائی جس میں کہا گیا تھا کہ ’’ چیف جسٹس ہائی کورٹ سے کہا گیا نوازشریف اور مریم الیکشن تک باہر نہ آئیں، ‘‘، اس موقع پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اُس وقت ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کون تھے؟، حامد خان نے بتایا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں اس وقت چیف جسٹس انور کاسی تھے، تقریر میں بتایا کہ آئی ایس آئی نے شوکت صدیقی کو بینچ میں نہ رکھنے کا کہا۔
حامد خان نے بتایا کہ مؤکل کو پیشکش کی گئی کہ مرضی کا فیصلہ کرو تو ریفرنس ختم کرا دیں گے، فیض آباد دھرنا کیس میں ریمارکس پر بھی ایک ریفرنس دائر ہوا تھا، شوکت صدیقی پر ایک ریفرنس سرکاری گھر کی تزئین و آرائش کا بھی تھا، شوکت صدیقی کیخلاف درخواست گزار جمشید دستی ، سی ڈی اے افسر اور وکیل تھیں، جس ریفرنس پر برطرفی ہوئی وہ سپریم جوڈیشل کونسل نے سوموٹو لیا تھا۔
جسٹس جمال مندوخل نے استفسار کیا کہ سپریم جوڈیشل کونسل کو تقریر کا کیسے معلوم ہوا؟ جس پر حامد خان نے بتایا کہ رجسٹرار سپریم کورٹ نے سپریم جوڈیشل کونسل کو نوٹ لکھا تھا۔
چیف جسٹس فائز عیسی نے استفسار کیا کہ کیا شوکت صدیقی کی تقریر تحریری تھی؟ جس پر حامد خان نے بتایا کہ انہوں نے فی البدیہہ تقریر کی تھی، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ شوکت صدیقی کو مرضی کا فیصلہ کرنے کا کس نے کہا؟، جس پر حامد خان نے بتایا کہ جنرل فیض حمید ایک بریگیڈیئر کے ساتھ مؤکل کے گھر گئے تھے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ جس شخص پر الزام لگا رہے ہیں انہیں فریق کیوں نہیں بنایا گیا؟، حامد خان نے بتایا کہ شخصیات ادارے کی نمائندگی کر رہی تھیں اس لیے فریق نہیں بنایا، فیض حمید کو بطور گواہ سپریم جوڈیشل کونسل میں بلانا تھا۔
کسی پر الزام نہ لگائیں یا پھر جن پر الزام لگا رہے انہیں فریق بنائیں،چیف جسٹس
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کسی پر الزام نہ لگائیں یا پھر جن پر الزام لگا رہے انہیں فریق بنائیں جبکہ جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ شوکت صدیقی نے چیف جسٹس کے ہائی کورٹ پر الزام لگایا، مگر جسٹس انور کاسی کو بھی فریق نہیں بنایا گیا۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا فیض حمید کو کسی اور درخواست گزار نے فریق بنایا ہے؟ جس پر وکیل بار کونسل نے جواب دیا کہ فیض حمید کو نہیں آئی ایس آئی کو فریق بنایا گیا ہے جبکہ جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ انور کاسی نے سپریم جوڈیشل کونسل میں جواب جمع کرایا تھا۔
حامد خان نے بتایا کہ سپریم جوڈیشل کونسل میں جواب جمع کرایا تو سماعت کا موقع ہی نہیں ملا، سپریم کورٹ کے 5رکنی بینچ نے اوپن کورٹ میں سماعت کا حکم دیا تھا، عدالت نے کہا تھا جو جج چاہے اس کیخلاف کارروائی کھلی عدالت میں ہوگی، سپریم جوڈیشل کونسل نے صرف ابتدائی سماعت کی تھی،باضابطہ انکوائری ہونا تھی۔
جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ شوکت صدیقی نے تقریر کا متن بیان حلفی پر کونسل کو کیوں نہیں دیا؟
حکم نامہ
بعدازاں، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے آج کی سماعت کا حکمنامہ لکھوانا شروع کیا جس کے تحت اپیل پر سماعت کل تک ملتوی کر دی گئی جبکہ شوکت صدیقی کی جانب سے درخواست میں فیض حمید اور انور کاسی کوفریق بنانے کا فیصلہ کیا گیا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ فریق بنانے کی درخواست آج دائر کرتے ہیں تو کل نوٹس کردیں گے جس پر حامد خان نے فریق بنانے کی درخواست دائر کرنے کی یقین دہانی کراتے ہوئے کہا کہ جن پر الزام لگایا انہیں فریق بنانے کی درخواست کل تک دائر کر دیں گے۔