سپریم کورٹ کی جانب سے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل سے متعلق اپنا ہی فیصلہ مشروط طور پر معطل کردیا گیا۔
عدالت عظمیٰ کی جانب سے 5 ایک سے فیصلہ سنایا گیا جس میں کہا گیا کہ فوجی عدالتیں زیر سماعت ٹرائل کا حتمی فیصلہ نہیں سنائیں گی جبکہ جسٹس مسرت ہلالی نے فیصلے سے اختلاف کیا اور لارجز بینچ نے انٹرا کورٹ اپیلوں پر فریقین کو نوٹس بھی جاری کر دیا۔
سماعت کا احوال
بدھ کے روز سپریم کورٹ میں جسٹس سردار طارق مسعود کی سربراہی میں جسٹس امین الدین خان ، جسٹس محمد علی مظہر ، جسٹس حسن اظہر رضوی ، جسٹس مسرت ہلالی اور جسٹس عرفان سعادت خان پر مشتمل 6 رکنی لارجر بینچ نے فوجی عدالتوں سے متعلق عدالتی فیصلے کیخلاف انٹرا کورٹ اپیلوں پر سماعت کی۔
جسٹس سردار طارق کا بینچ سے علیحدہ ہونے سے انکار
سماعت کے آغاز پر بینچ کے سربراہ جسٹس سردار طارق نے بینچ میں بیٹھنے پر جسٹس ( ر ) جواد ایس خواجہ کا اعتراض مسترد کرتے ہوئے بینچ سے علیحدہ ہونے سے انکار کردیا اور ریمارکس دیئے کہ جسٹس ( ر) جواد ایس خواجہ کا اپنا فیصلہ ہے کہ الگ ہونا جج کی صوابدید ہے، معذرت چاہتا ہوں ، میں خود کو بینچ سے الگ نہیں کرتا۔
اعتزاز احسن، لطیف کھوسہ کو دلائل سے روک دیا
عدالت نے معروف قانون دان اعتزاز احسن ، سلمان اکرم راجہ اور لطیف کھوسہ کو دلائل دینے سے بھی روک دیا اور جسٹس طارق مسعود نے ریمارکس دیئے کہ آپ کو ابھی نوٹس نہیں ہوا، جب نوٹس ہوگا تو تب بات کریں۔
سلمان اکرم راجہ نے استدعا کی کہ اگر ایسا ہے تو پھر عدالت آج حکم امتناع جاری نہ کرے جس پر جسٹس سردار طارق نے استفسار کیا کہ خود بتا دیں کہ ایسے کیسز میں حکم امتناع ہوتا ہے یا نہیں؟۔
لطیف کھوسہ کی مخالفت
سردار لطیف کھوسہ کی جانب سے حکم امتناع جاری کئے جانے کی مخالفت کی گئی اور موقف اختیار کیا گیا کہ ملٹری کورٹس کا فیصلہ دینے والے بھی اسی سپریم کورٹ کے جج ہیں، انہوں نے سوال اٹھایا کہ ٹرائل کالعدم قرار دینے والا تفصیلی فیصلہ نہیں آیا تو ٹرائل دوبارہ کیسے چلے گا؟۔
جسٹس سردار طارق مسعود نے استفسار کیا کہ پھر یہ ایپلٹ عدالت بنی ہی کیوں؟، سویلین والی دفعات تو کالعدم ہو گئیں،وہ نہ کی جاتیں، اپنے بچوں کو شہید کرنے والوں کا ٹرائل کس قانون سے کریں؟۔
سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ جب ہمیں سنا جائے گا تو ان سوالوں پر تسلی بخش جواب دیں گے، سیکشن 2ون ڈی 1967ء میں آیا تو اس کے بعد 1973ء میں آئین آیا، بنیادی انسانی حقوق کو آئین میں تحفظ دیا گیا۔
جسٹس طارق نے ریمارکس دیئے کہ ایک تو پتہ نہیں یہ بنیادی حقوق ہمیں کہاں لیکر جائیں گے۔
اٹارنی جنرل کی استدعا
دوران سماعت اٹارنی جنرل نے ملٹری کورٹس میں ٹرائل چلانے کی مشروط اجازت کی استدعا کی جس پر جسٹس سردار طارق نے استفسار کیا کہ ایک قانون کالعدم ہوچکا ، اس میں سے کیسے چیزیں نکال نکال کر آپ کو اجازت دیں؟ جبکہ جسٹس میاں محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ اس کیس میں اتنی جلدی کیا ہے؟۔
اعتزاز احسن نے موقف اختیار کیا کہ صرف اپیل دائر ہوجانے پر اسٹے آرڈر نہیں ہوتا نوٹس ہوتا ہے جس پر جسٹس طارق نے ریمارکس دیئے کہ اگر اس کا اثر پڑ رہا ہو تو حکم امتناع بھی ہوتا ہے۔
اٹارنی جنرل نے موقف اختیار کیا کہ 9 مئی کے ملزمان کو سنگین سزاؤں والی دفعات سے بھی چارج کیا جا سکتا تھا، سنگین دفعات اس لیے نہیں لگائیں کہ بے شک وہ گمراہ تھے مگر ہمارے شہری ہیں۔
فیصل صدیقی نے کہا کہ فیصلے کی ایک جز معطل کردی جائے تو اٹارنی جنرل کا مسئلہ حل ہو سکتا ہے جس پر لطیف کھوسہ نے کہا کہ ہم فیصل صدیقی سے متفق نہیں جبکہ سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ ہم غیر آئینی ٹرائل کا حصہ نہیں بن سکتے۔
فیصل صدیقی نے کہا کہ فیصلے کی جس شق میں دہشت گروں کا ٹرائل متاثر ہورہا ہے وہ معطل کر دیں، 9 مئی والے 103 ملزمان کو واپس انسداد دہشت گردی عدالت بھیجا جائے۔
اعتزاز احسن نے کہا کہ موجودہ چیف جسٹس رائے دے چکے کہ ملٹری کورٹس میں فئیر ٹرائل نہیں ہوسکتا۔
بعدازاں، سپریم کورٹ کے لارجر بینچ نے حکم امتناع دینے کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔
سماعت کے اختتام پر عدالت عظمیٰ نے محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کالعدم قرار دینے کا فیصلہ معطل کردیا اور ٹرائل جاری رکھنے کی اجازت دے دی جبکہ کیس کی مزید سماعت جنوری کے تیسرے ہفتے تک ملتوی کردی