اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے العزیزیہ کیس میں سابق وزیر اعظم نوازشریف کی اپیل پر میرٹ پر سماعت کا فیصلہ کرتے ہوئے مقدمہ احتساب عدالت کو بھجوانے کی استدعا مسترد کر دی گئی۔
جمعرات کے روز اسلام آباد ہائیکورٹ میں چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب پر مشتمل دو رکنی بینچ نے العزیزیہ ریفرنس میں سزا کیخلاف سابق وزیر اعظم نواز شریف کی اپیل پر سماعت کی جس کے دوران ان کے وکیل امجد پرویز ایڈووکیٹ اور اور نیب پراسیکیوٹر عدالت میں پیش ہوئے۔
سابق وزیر اعظم نواز شریف کی پیشی کے موقع پر لیگی کارکنان کی بڑی تعداد بھی عدالت کے باہر جمع ہوئی۔
سماعت کا آغاز
نواز شریف کے وکیل امجد پرویز نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ فلیگ شپ ریفرنس میں نوازشریف بری ہوئےتھے، سپریم کورٹ کافیصلہ اور جےآئی ٹی بھی وہی ہے جو ایون فیلڈ ریفرنس میں تھی، نوازشریف کا اعتراض تھا کہ ایک الزام پر3 ریفرنس نہیں بن سکتے، اسلام آباد ہائی کورٹ نے ریفرنسز یکجا کرنے کی درخواست احتساب عدالت کو بھیجی تھی جبکہ ہائیکورٹ نے احتساب عدالت کو درخواست پر فیصلے کی ہدایت کی تھی۔
وکیل امجد پرویز نے دلائل دئیے کہ احتساب عدالت نے ٹرائل الگ الگ کیا لیکن فیصلہ ایک ساتھ سنانے کا کہا تھا، ہائیکورٹ نے قرار دیا تھا ایک ساتھ تینوں کیسز کے فیصلے سے آسمان نہیں گر جائے گا۔
العزیزیہ ریفرنس میں الزام کیا تھا؟
عدالت نے استفسار کیا کہ العزیزیہ ریفرنس میں الزام کیا تھا؟ جس پر وکیل نے بتایا کہ یہ آمدن سے زائد اثاثہ جات کا کیس تھا، اِس کیس میں 22 گواہ ہیں جن میں 13 وہ ہیں جنہوں نے ریکارڈ پیش کیا لیکن وقوعہ کا کوئی چشم دید گواہ نہیں ہے ، صرف دو گواہ رہ گئے ہیں، ایک محبوب عالم اور دوسرے واجد ضیا ہیں۔
امجد پرویز نے بتایا کہ ایک نیب کے تفتیشی افسر ہیں اور دوسرے جے آئی ٹی کے سربراہ ہیں۔
وکیل نے کہا کہ ان گواہوں کے بیانات سے کچھ حصہ عدالت میں پڑھ کر سناؤں گا، عدالت نے دیکھنا ہے کہ جرم ثابت ہوتا بھی تھا یا نہیں، العزیزیہ اسٹیل مل جدہ میں 2001 میں بنائی گئی تھی، دوسری کمپنی ہل میٹل تھی جو حسین نواز کی ملکیت اور2006 میں بنی تھی، نوازشریف نے دونوں کمپنیوں کے قیام کیلئے کوئی رقم نہیں دی، دونوں کمپنیاں جب بنیں تو نوازشریف جلا وطن تھے۔
کیا نوازشریف کی ملکیت سے متعلق کوئی دستاویز ہے؟
چیف جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ کیا نوازشریف کی ملکیت سے متعلق کوئی دستاویز ہے؟ ، جس پر امجد پرویز نے بتایا کہ نوازشریف کی ملکیت کی کوئی دستاویز نہیں ہے، العزیزیہ اسٹیل مل میاں شریف نے زندگی میں بنائی، واجد ضیا نےدوران جرح تسلیم کیا تھا کہ نوازشریف کیخلاف شواہد نہیں، دونوں کمپنیاں قائم ہوئیں توحسین نواز پہلے سے بزنس کر رہے تھے، حسین نواز کبھی نوازشریف کے زیرکفالت نہیں رہے۔
امجد پرویز نے کہا کہ میاں شریف اپنی زندگی میں پوتوں کو بھی جیب خرچ خود دیتے تھے، نوازشریف 12 اکتوبر 1999 سےمئی 2013 تک عوامی عہدے پر نہیں رہے۔
نیب پراسیکیوٹر
سماعت کے دوران نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ نوازشریف نے اضافی شواہد کی درخواست بھی دی تھی، جس پر امجد پرویز نے کہا کہ سزا سنانے والے جج ارشد ملک کی ویڈیو کے حوالے سے درخواست تھی، نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ سپریم کورٹ نے ویڈیو پر فیصلہ دیا تھا۔
جج ویڈیو اسیکنڈل سے متعلق درخواست کی پیروی نہیں کریں گے
امجد پرویز نے کہا کہ سپریم کورٹ نے قراردیا تھا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ ہی اس پرفیصلہ دے سکتی ہے جبکہ پراسیکیوٹر نے کہا کہ مناسب ہوگا میرٹ پر دلائل سے پہلے ویڈیو والی درخواست پر فیصلہ کیا جائے جس پر امجد پرویز نے موقف اختیار کیا کہ ارشد ملک انتقال کرچکے لہذا ویڈیو سے متعلق درخواست کی پیروی نہیں کریں گے، جج ویڈیو اسیکنڈل سے متعلق اپنی درخواست کی پیروی نہیں کریں گے۔
جسٹس میاں گل حسن نے ریمارکس دیئے کہ اگر فیصلے کے وقت جج کا کنڈکٹ ٹھیک نہیں تھا یا بدیانت تھا تو اسکے اثرات ہوں گے، بتائیں اُن کو بطور جج کیوں برطرف کیاگیا تھا ؟ جج کو کیوں چارج کیا تھا ؟۔
اعظم نزیر تارڑ نے کہا کہ میرٹ پر ہمارا کیس پہلے سے بہتر ہے ، عدالت نے یقینی بنانا ہے کہ انصاف ہوتا ہوا نظر بھی آئے۔
نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ جج ارشد ملک کو لاہور ہائیکورٹ نے عہدے سے برطرف کیا تھا، جسٹس گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دینے کہ عدالت کو ٹھوس مواد چاہیے ، اگر ارشد ملک بد دیانت تھے تو معاملہ کافی سنگین ہوگا۔
ہم یہاں اسکرین لگا دیں گے اور ویڈیو چلا دیں گے
جسٹس میاں گل حسن نے ریمارکس دیئے کہ اگرآپ اس درخواست کی پیروی کریں گے تو ہم اِس کو دیکھیں گے، ارشد ملک اب نہیں ہیں لیکن باقی لوگ تو ابھی موجود ہیں، آپ کا کیا فیصلہ ہے اس درخواست کی پیروی کرنا چاہتے ہیں یا نہیں ؟۔
امجد پرویز نے بتایا کہ مجھے ہدایت ہے جج ارشد ملک ویڈیو اسیکنڈل سے متعلق درخواست کی پیروی نہیں کرنا چاہتے۔
جسٹس میاں گل حسن نے ریمارکس دیے کہ اب آپ کا اختیار ہے یہ معاملہ اٹھانا چاہتے ہیں یا نہیں کیونکہ درخواست تو موجود ہے، ہم یہاں اسکرین لگا دیں گے اور ویڈیو چلا دیں گے، لیکن یہ بات یاد رکھیں کہ یہ دو دھاری تلوار بھی ثابت ہوسکتی ہے، لاہور ہائیکورٹ کے نوٹیفکیشن سے ارشد ملک پر عائد الزام واضح نہیں ہو رہا، کیاعدالت ویڈیو کا جائزہ لیکر فیصلہ کرے مقدمہ ٹرائل کورٹ کوریمانڈ کرنا ہے یا نہیں۔
درخواست واپس لینے پر اعتراض نہیں ہے
نیب پراسیکوٹر نے کہا کہ نواز شریف کی جانب سے درخواست واپس لینے پر اعتراض نہیں ہے جس پر چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیئے کہ سپریم کورٹ نے مرحوم جج ارشد ملک سے متعلق سخت زبان استعمال کی ہے جبکہ نیب پراسیکیوٹر نے جواب دیا کہ سپریم کورٹ نے ایک راستہ ٹرائل کورٹ کو ریمانڈ دوسرا ہائیکورٹ کو خود فیصلہ کرنے کا دیا تھا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ عدالت میرٹ پر خود فیصلے کرے یا دوبارہ فیصلے کیلئےریمانڈ کر دے، یہی دو راستے ہیں جس پر اعظم نزیر تارڑ نے کہا کہ محفوظ راستہ یہی ہے کہ دوبارہ فیصلے کیلئے ریمانڈ کر دیا جائے۔
جسٹس گل حسن نے ریمارکس دیئے کہ ایک راستہ اپیل خارج کردیں، دوسرا اپیل منظور کرکے نوازشریف کو بری کر دیں، تیسرا راستہ ہے کہ اپیل منظور کرتے ہوئے احتساب عدالت کو واپس بھجوا دیں۔
العزیزیہ ریفرنس کا فیصلہ کالعدم قرار دینے کی استدعا
سماعت کے دوران العزیزیہ ریفرنس کا فیصلہ کالعدم قرار دینے کی استدعا کرتے ہوئے پراسیکیوٹر نے کہا کہ عدالت فیصلہ کالعدم قرار دیکر ریمانڈ بیک کر دے، جس پر جسٹس گل حسن نے ریمارکس دیے کہ جب سپریم کورٹ نےفیصلہ دیا تو ارشد ملک حیات تھے، دیکھنا ہوگا کیا ارشد ملک کو العزیزیہ ریفرنس فیصلےکی وجہ سے برطرف کیا گیا تھا۔
اعظم نزیر تارڑ نے کہا کہ اضافی شواہد یا عدالت خود ریکارڈ کرتی یا کسی کمیشن کو بھجواتی ہے جبکہ نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ اپیل میرٹ پر منظور ہوئی تو تشنگی رہ جائے گی۔
جسٹس میاں گل حسن نے ریمارکس دیئے کہ مقدمہ ریمانڈ کرنا دو دھاری تلوار ہوسکتا ہے، اعظم نزیر تاڑر نے کہا کہ ارشد ملک زندہ ہوتے تو انہیں طلب کرنے کی استدعا کرتے، معلوم ہے کہ ٹرائل کورٹ سے کوئی بھی فیصلہ آ سکتا ہے۔
امجد پرویز نے کہا کہ دوبارہ فیصلے کیلئے کیس احتساب عدالت کو بھجوانے کے مؤقف سے متفق ہیں ، اسلام آباد ہائیکورٹ احتساب عدالت کو ایک ماہ میں فیصلے کی ہدایت دے۔
اپیل پر میرٹ پر سماعت کا فیصلہ
تاہم، اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے العزیزیہ کیس میں نوازشریف کی اپیل پر میرٹ پر سماعت کا فیصلہ کرتے ہوئے مقدمہ احتساب عدالت کو بھجوانے کی استدعا مسترد کر دی گئی۔
اعظم نزیر تارڑ کی سرزنش
سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ن لیگی عہدیداران کی عدالت میں نقل و حرکت پر اعظم نذیر تارڑ کی سرزنش کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ آپ ہر سماعت پر اتنا کراؤڈ لے آتے ہیں، کیا یہاں کوئی میچ ہو رہا ہے، معاملہ ایسا ہے چلنا ہے تو ہم اٹھ کر چلے جاتے ہیں۔
عدالت کی جانب سے لیگی رہنما عطاء تارڑ کو نشست پر بیٹھے کا حکم بھی دیا گیا۔
عدالت کی جانب سے جج ویڈیو اسیکنڈل کیس سے متعلق درخواست کی پیروی نہ کرنے کی استدعا بھی منظور کی گئی۔
امجد پرویز کا میرٹ پر دلائل کا آغاز
امجد پرویز ایڈووکیٹ نے میرٹ پر دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ العزیزیہ اسٹیل مل 2001 میں بنی اور 2005 میں ختم ہوگئی، حسین نواز نے اپنی کمائی سے والد کو بطور تحفہ پیسہ بھیجا جو گوشواروں میں موجودہے، العزیزیہ اسٹیل مل ختم ہونے کے بعد ہل میٹل کمپنی کی بنیاد رکھی گئی، نیب نے کبھی نہیں کہا کہ نوازشریف نے رقم گوشواروں میں ظاہر نہیں کی۔
امجد پرویز ایڈوکیٹ نے بتایا کہ بیٹے نے باپ کو باہر سے بینکنگ چینل کے ذریعے رقم بھجوائی، ہل میٹل اسٹیبلشمنٹ بنانے کے 4 سال بعد یہ رقم بھجوائی گئی،2017 میں حسین نواز کے اکاؤنٹ سے جو رقم آئی وہ ٹیکس ریٹرن میں بھی ظاہر ہے، العزیزیہ اسٹیل ملز اور ہل میٹل اسٹیبلشمنٹ سے نواز شریف کا کوئی تعلق نہیں، نواز شریف نے کبھی ان دونوں کمپنیوں کی ملکیت کا دعویٰ نہیں کیا۔
بے نامی ٹرانزیکشن کو ثابت کرنا نیب کی ذمہ داری تھی
امجد پرویز نے بتایا کہ یہ مؤقف سپریم کورٹ، جے آئی ٹی اور ٹرائل کورٹ کے سامنے بھی رکھا، بیٹوں کی طرف سے والد کو باہر سے رقم بھجوانا کوئی جرم نہیں، یہ کہتے ہیں آپ کو جو رقم آئی ہے تو دراصل آپ اُس کے اصل مالک ہیں۔
نواز شریف کی فیملی نے 1976 میں دبئی میں گلف اسٹیل ملز لگائی، یہ گلف کی سب سے بڑی اسٹیل ملز تھی جو دبئی میں لگائی گئی، یہ بعد کی بات ہے کہ وہ منافع میں رہی یا نہیں ، بے نامی ٹرانزیکشن کو ثابت کرنا نیب کی ذمہ داری تھی، نیب نے نواز شریف کے خلاف سعودی عرب کی آڈٹ فرم کی فوٹو کاپی پر انحصار کیا ہے۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ فوٹو کاپی کو عدالت نے بطور شواہد تسلیم کیسے کیا؟، جس پر امجد پرویز نے کہا کہ مقدمہ میں مرکزی گواہ صرف دو تھے باقی سب نے ریکارڈ ہی پیش کیا تھا، لاہور ہائی کورٹ فیصلے کے مطابق آمدن سے زائد اثاثوں کا کیس دائر ہی تب ہو سکتا ہے جب آمدن اور اثاثے کی مالیت کا تقابل موجود ہو، واجد ضیاء نے جرح میں بتایا تھا کہ یہ سورس ڈاکومنٹ ہے۔
نوازشریف کوقابل ادا تنخواہوں سےمتعلق دستاویزمصدقہ ہے؟
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ العزیزیہ کمپنی کی نوازشریف کو قابل ادا تنخواہوں سے متعلق دستاویز مصدقہ ہے؟، جس شخص نےقابل وصول تنخواہ کی دستاویز تیارکی اُس نے کسی عدالت میں تصدیق کی؟۔
وکیل امجد پرویز نے بتایا کہ قابل وصول تنخواہ کی دستاویز تیارکرنے والے نے کبھی عدالت میں تصدیق ہی نہیں کی، یہ سب فوٹو کاپی دستاویز ہے ، عدالت نے ایسی دستاویز کو بطور ثبوت ناقابلِ قبول قراردیا ہے، اِس لئے اس دستاویز کی کوڑکباڑ سے زیادہ کوئی اہمیت نہیں۔
امجد پرویز ایڈووکیٹ کے دلائل مکمل
سماعت کے دوران نوازشریف کے وکیل امجد پرویزایڈووکیٹ نے دلائل مکمل کر لئے جس پر عدالت کی جانب سے کہا گیا کہ آئندہ سماعت پر نیب کے دلائل سنیں گے۔
بعدازاں، اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے نوازشریف کی اپیل پر مزید سماعت 12 دسمبر تک ملتوی کردی گئی۔