پنجاب اسمبلی کے سابق رکن جلیل شرقپوری نے کہا ہے کہ قومی اسمبلی کے انتخابات حلقہ بندی کی بجائے قومی سطح پر متناسب نمائندگی کی بنیاد پر کروائے جائیں اور ووٹ ڈالنا ہر شہری پر لازم قرار دیا جائے۔
شرقپورشریف میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے سابق رکن صوبائی اسمبلی جلیل شرقپوری کا کہنا تھا کہ تمام سیاسی پارٹیاں اپنے اپنے کارکنان کا ریکارڈ الیکشن کمیشن میں درج کروائیں اور عام انتخابات سے قبل الیکشن کمیشن کی نگرانی میں پارٹی الیکشن لازمی ہوں۔
سابق ایم پی اے کا کہنا تھا کہ قومی اسمبلی وجود میں آ جانے کے بعد 2 ماہ کا تربیتی کورس تمام اراکین کیلئے لازمی قرار دیا جائے، تمام ممبران اسمبلی کیلئےعوامی خدمات اور قانون سازی کے لیے ضروری اسٹاف مہیا کیا جائے۔
جلیل شرقپوری کا کہنا تھا کہ صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات انتخابی حلقہ بندیوں کی بنیاد پر ہی ہوں، کامیاب امیدوار کیلئے 51 فیصد ووٹ لینا لازمی قرار دیا جائے، بلدیاتی انتخابات بھی صوبائی انتخابات کے ساتھ ہی منعقد ہوں مگرغیر جماعتی بنیادوں پر ہوں، بلدیات میں بھی کامیاب امیدوار کے لیے 51 فیصد ووٹ لینا لازمی قرار دیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ کا انتخاب 51 فیصد ووٹ سے ہو، منتخب وزیر اعظم یا وزیر اعلیٰ کیخلاف عدم اعتماد کیلئے 66 فیصد ووٹ لازمی قرار دیا جائے، وزیراعظم یا وزیر اعلیٰ ممبران اسمبلی میں سے نہ ہوں بلکہ قومی قائدین میں سےہوں اور وزیر مملکت اور پارلیمانی سیکرٹری منتخب اسمبلی سے ہی لیے جائیں۔
ان کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ کے انتخابات میں حصہ لینے والے ہر قائد سے حلف لیا جائے کہ اس کا کوئی بینک اکاؤنٹ یا کوئی جائیداد کسی دوسرے ملک میں نہیں ہے، وزیر اعظم اور وزیراعلیٰ منتخب ہو جانے کی صورت میں وہ زندگی بھر کبھی بھی سرکاری اجازت کے بغیر بیرون ملک سفر نہیں کرے گا۔
انہوں نے کہا کہ علماء کرام کے لیے کم از کم 25 فیصد نشستیں مخصوص کی جائیں جیسے خواتین کے لیے 33 فیصد رکھی گئیں ہیں، سینٹ میں تمام نشستیں خصوصی افراد کے لیے مخصوص کی جائیں، ججز کی سیاسی حکومتوں کی طرف سے تعیناتی پر پابندی لگائی جائے، سول ججز کا انتخاب مقابلے کے امتحان کے ذریعے کیا جائے جس میں عام تعلیمی قابلیت کے ساتھ ساتھ قرآن و سنت کی تعلیمی قابلیت بھی چیک کی جائے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ججز کی تمام ترقیاں کارکردگی کی بناء پر ہوں، سول جج ہی سیشن جج بنیں اور ہائی کورٹس کے لیے بھی وہ تعینات کئے جائیں، 60 % جج سیشن کورٹس سے ترقی پا کر آئیں، 20% جج سینیئر ترین ریٹائرڈ بیوروکریٹ لیے جائیں، 20% جج ٹاپ کلاس وکلاء ہائی کورٹس میں جائیں اور ہائی کورٹس کے جج ہی ترقی پا کر سپریم کورٹس میں جائیں۔