سندھ ہائیکورٹ نے سانحہ بلدیہ فیکٹری کیس میں ملزمان کی اپیلوں پر فیصلے میں ناصرف پولیس تفتیش کے پرخچے اڑا کر رکھ دیئے بلکہ حکومتی اداروں کی غفلت اور لاپرواہی کی بھی نشاندہی کی، عدالت عالیہ کے فیصلے کو ایم کیو ایم کے خلاف چارج شیٹ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔
عدالتی فیصلے کے مطابق ایک جانب گمراہ کن ایف آئی آر کاٹ کر کیس کو غلط رخ پر ڈالنے کی کوشش کی گئی دوسری جانب سرکاری اداروں نے اپنی ذمہ داریاں ادا نہیں کیں۔
بلدیہ فیکٹری میں 260 سے زائد افراد کے لرزہ خیز قتل کے الزام میں انسداد دہشت گردی عدالت نے ایم کیو ایم پاکستان کے کارکنوں عبدالرحمان بھولا اور زبیر عرف چریا کو 22 ستمبر 2020ء کو پھانسی کی سزا سنائی تھی۔
اب اے ٹی سی کے فیصلے کیخلاف اپیلوں پر سندھ ہائیکورٹ نے فیصلہ سنادیا ہے، جس پر ایم کیو ایم پاکستان کی قیادت نے پرزور احتجاجی پریس کانفرنس کی ہے۔ سانحہ بلدیہ فیکٹری کیس کا فیصلہ سندھ ہائیکورٹ کے جج جسٹس کریم خان آغا نے تحریری کیا جو 2 رکنی اپیلٹ بینچ کے سربراہ تھے۔
جسٹس کریم خان آغا کچھ برسوں سے سندھ ہائیکورٹ میں فوجداری مقدمات میں اپیلوں کی سماعت کررہے ہیں اور اس حوالے سے ان فوجداری قوانین کے ماہرین ان کے فیصلوں کو سراہتے ہیں اور ایسا کم ہی ہوا ہے کہ اپیلوں پر سنایا گیا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا ہو۔
ایم کیو ایم پاکستان کا فیصلے پر اعتراض
ایم کیو ایم کی قیادت نے عدالت عالیہ کے فیصلے کے بعد ایک پریس کانفرنس کی، جس میں سانحہ بلدیہ فیکٹری کیس میں سزائے موت پانیوالے عبدالرحمان بھولا اور زبیر عرف چریا کو ناصرف اون کیا بلکہ سندھ ہائیکورٹ کے فیصلے پر شدید تنقید کی۔ ایم کیو ایم قیادت کا بنیادی اعتراض ہے کہ عدالت نے مفروضے کی بنیاد پر یہ کہا کہ ایم کیو ایم قیادت کی منظوری کے بغیر اتنا بڑا جرم نہیں ہوسکتا۔
ایم کیو ایم کا کہنا ہے یہ حادثہ تھا دہشت گردی نہیں تھی اور یہ حادثہ شارٹ سرکٹ کی وجہ سے رونما ہوا، فیکٹری میں حفاظتی انتظامات نہیں تھے، فیکٹری مالکان کی غفلت سے انسانی جانوں کا ضیاع ہوا، ایم کیو ایم رہنماؤں نے پریس کانفرنس میں ایڈووکیٹ فیصل صدیقی کی کتاب کا بھی حوالہ دیا، جس میں اس سانحہ کو شارٹ سرکٹ کا نتیجہ قرار دیا گیا ہے۔
یہاں یہ پہلو بھی اہم ہے کہ انسداد دہشت گردی عدالت میں سانحہ بلدیہ فیکٹری کیس کے ٹرائل کے دوران ایڈووکیٹ فیصل صدیقی کبھی پیش نہیں ہوئے، نہ ہی وہ کیس میں فریق تھے۔ سندھ ہائیکورٹ میں ایڈووکیٹ فیصل صدیقی غیر سرکاری تنظیم پائلر کی جانب سے پیش ہوتے رہے ہیں جس میں متاثرین کو معاوضہ دلوانے کی استدعا کی گئی تھی۔
عدالتی فیصلہ یا ایم کیو ایم کیخلاف چارج شیٹ
سانحہ بلدیہ فیکٹری کیس میں انسداد دہشت گردی عدالت کے فیصلے کیخلاف اپیل پر سندھ ہائیکورٹ نے ایم کیو ایم کو بحیثیت تنظیم چارج شیٹ کیا ہے۔ عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ایم کیو ایم ایک سیاسی جماعت ہے جسے سندھ کے شہری علاقوں میں عوامی حمایت بھی حاصل ہے اور پارلیمان میں معقول نشستیں بھی حاصل کرتی رہی ہے مگر قیادت کے حکم پر پرتشدد کارروائیاں اس جماعت کا خاصہ رہا ہے، ان پر لوگوں کو خوفزدہ کرکے بھتہ وصول کرنے کے بھی الزامات ہیں۔
عدالتی فیصلے میں ڈاکٹر عمران فاروق قتل کیس اور سابق ایم ڈی کے ای ایس سی شاہد حیات قتل کیس کا حوالہ دیتے ہوئے یہ بھی کہا گیا ہے کہ قیادت کے حکم پر ٹارگٹ کلنگ ایم کیو ایم کی خاصیت رہی ہے، سانحہ بلدیہ کیس میں گواہوں کے خوفزدہ ہونے اور تاخیر سے سامنے آنے کی وجوہات بھی واضح ہیں۔
عدالت نے ایک اور نکتہ اٹھایا کہ ایم کیو ایم کے ایک سابق رکن رضوان قریشی کی جے آئی ٹی اتفاقاً سندھ ہائیکورٹ میں ایک کیس کے دوران پیش کی گئی تو پتہ چلا کہ بلدیہ فیکٹری (علی انٹر پرائزز) میں 11 ستمبر 2012ء کو آگ لگائی گئی تھی۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں اعلیٰ عدالتوں کے کئی فیصلوں کا حوالہ دیتے ہوئے یہ بھی کہا کہ گواہوں کے تاخیر سے پیش ہونے کے باوجود ان کے بیانات کا جائزہ لیا جائے گا، کیونکہ واضح ہے کہ کراچی میں ایک خوف کی فضا تھی۔
سندھ ہائیکورٹ نے سپریم کورٹ کے کراچی بدامنی کیس کے فیصلے کا حوالے دیتے ہوئے کہا کہ خوف کی وجہ سے گواہان عدالت آنے سے گریز کرتے ہیں۔ عدالت نے یہ بھی کہا کہ ایک ہزار سے زائد مزدوروں کی فیکٹری کو جلانے کا اتنا سنگین فیصلہ ایم کیو ایم کی اعلیٰ ترین قیادت کی منظوری کے بغیر نہیں کیا جاسکتا تھا، اس واقعے کے بعد ایم کیو ایم کی کراچی تنظیمی کمیٹی کے ذمہ داران سے فیکٹری مالکان کی ایم کیو ایم کے ہیڈ کوارٹر نائن زیرو پر ملاقاتیں ہوئیں، ابتدائی تفتیش میں اس پہلو کو بھی نظر انداز کیا گیا۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں ایم کیو ایم کراچی تنظیمی کمیٹی کے سابق سربراہ حماد صدیقی کی عدم گرفتاری پر بھی کئی سوالات اٹھائے اور حماد صدیقی کو 10 سال تک قانون کی گرفت میں نہ لانے پر متعلقہ اداروں پر برہمی کا بھی اظہار کیا اور متعلقہ حکام کو اس حوالے سے رپورٹ بھی پیش کرنے کا حکم دیا ہے۔
عبدالرحمان بھولا کا جرم کا اعتراف اور پھر انکار
بلدیہ فیکٹری کیس کے مرکزی ملزم عبدالرحمان بھولا کا ایک ویڈیو بیان حالیہ دنوں میں زیر گردش ہے، جس میں ملزم نے ناصرف سانحہ بلدیہ میں ملوث ہونے سے انکار کیا بلکہ یہ بھی الزام لگایا کہ رینجرز کی جانب سے دباؤ ڈال کر اس سے اعترافی بیان لیا گیا تھا۔ یہاں یہ بھی واضح رہے کہ عبدالرحمان بھولا نے یہ انکار پہلی دفعہ نہیں کیا۔
عبدالرحمان بھولا نے جوڈیشل مجسٹریٹ کے سامنے ضابطہ فوجداری کی دفعہ 164 کے تحت دیئے گئے بیان میں یہ اعتراف کیا تھا کہ قیادت کی طرف سے اسے علی انٹر پرائزز کے مالکان سے بھتہ وصولی کا ٹاسک ملا تھا تاہم بھتہ نہ ملنے پر فیکٹری میں آگ لگانے کا حکم دیا گیا، جس پر اس نے ساتھیوں کے ساتھ مل کر یہ کارروائی کی۔ مگر ٹرائل کے دوران انسداد دہشت گردی عدالت کے سامنے ملزم اعترافی بیان سے منحرف ہوگیا۔
سندھ ہائیکورٹ نے اپنے فیصلے میں قرار دیا ہے کہ ملزم اگر اپنے بیان سے مکر بھی جائے تو واقعاتی شواہد سے اعترافی بیان کا تعلق دیکھنا ضروری ہے، بظاہر جوڈیشل میجسٹریٹ کے سامنے عبدالرحمان بھولا کے اعترافی بیان میں کوئی بے ضابطگی ثابت نہیں ہوتی، تمام واقعاتی شواہد بھی اس بیان کو درست ثابت کررہے ہیں۔
عدالت نے ایک گواہ ماجد بیگ جو کہ ایم کیو ایم بلدیہ ٹاؤن کا کارکن تھا کی گواہی کا بھی حوالہ دیا۔ ماجد بیگ کے مطابق جولائی 2012ء میں ایک دن وہ فیکٹری پروڈکشن انچارج منصور کے آفس میں بیٹھا تھا جہاں عبدالرحمان بھولا بھی موجود تھا، فیکٹری مالک شاہد بھائلہ وہاں آئے تو عبدالرحمان بھولا نے باہر شاہد بھائلہ سے کچھ دیر تک ڈسکشن کیا، اسی طرح اہم گواہ منصور (پروڈکشن انچارج) کا بیان بھی عبدالرحمان بھولا کی فیکٹری میں بلا روک ٹوک آمد اور رقم وصولی کو ثابت کرتا ہے۔
عدالت نے یہ بھی قرار دیا کہ عبدالرحمان بھولا کا اعترافی بیان اور واقعاتی شواہد یہ ثابت کرتے ہیں کہ عبدالرحمان بھولا اور زبیر عرف چریا سانحہ کے اہم کردار اور ذمہ دار ہیں۔
شارٹ سرکٹ یا دہشت گردی؟
سندھ ہائیکورٹ نے اپیلوں کی سماعت کے دوران اس پہلو کا بھی تفصیلی جائزہ لیا کہ واقعی آگ لگائی گئی یا شارٹ سرکٹ ہونے کا دعویٰ درست ہے؟۔ عدالت عالیہ نے کہا کہ پنجاب فارنزک لیبارٹری رپورٹ کے مطابق گودام میں آگ بھڑکانے کیلئے آتش گیر مادہ پھینکا گیا۔
فارنزک رپورٹ سے یہ واضح ہوگیا کہ فیکٹری میں آگ شارٹ سرکٹ کی وجہ سے نہیں لگی تھی، اس بات کے بھی شواہد موجود ہیں کہ فیکٹری میں تازہ وائرنگ ہوئی تھی، شارٹ سرکٹ اور آگ لگنے کے بعد چند منٹ میں بریکر بند کردیئے گئے تھے، فیکٹری کا بوائلر بھی ٹھیک حالت میں تھا نہ وہ پھٹا اور نہ اس میں کوئی دھماکا ہوا، اس لئے بوائلر پھٹنے کی وجہ سے آگ لگنے کا امکان بھی نہیں تھا۔
سندھ ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں تحقیقاتی کمیشن کے کردار پر بھی تنقید کی۔ عدالت کا کہنا ہے کہ کمیشن نے آگ لگنے کی وجہ جاننے کیلئے کیمیکل ایگزامینیشن کرانے سے بھی گریز کیا۔
بھتہ خوری کا خوف اور معیشت
سندھ ہائیکورٹ نے اپنے فیصلے میں کراچی کی بے امنی، بھتہ خوری جیسے مسائل پر بھی تبصرہ کیا۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کی معشیت کو چیلنجز کا سامنا ہے، جب سرمایہ کاروں کو اپنی اور اپنے اہلخانہ کی جانوں کا خطرہ ہوگا تو ان حالات میں کون سرمایہ کار پاکستان میں سرمایہ کاری کرے گا۔
عدالت عالیہ نے قرار دیا کہ رؤف صدیقی سمیت 4 ملزمان کی بریت کیخلاف سندھ حکومت نے اپیل مقررہ وقت کے بعد دائر کی، اس لئے مسترد کی جاتی ہے۔ واضح رہے کہ 2 رکنی بینچ نے فریقین کے دلائل مکمل ہونے پر 29 اگست 2023ء کو فیصلہ محفوظ کیا تھا جو 11 ستمبر کو سنایا گیا۔
انسداد دہشت گردی عدالت نے 22 ستمبر 2020ء کو 2 ملزمان ایم کیو ایم کے سابق سیکٹر انچارج عبدالرحمان بھولا اور زبیر چریا کو سزائے موت اور 4 ملزمان فیکٹری ملازم ملزم شاہ رخ، فضل احمد، ارشد محمود اور علی محمد کو عمر قید کی سزائیں سنائی تھیں۔
عدالت نے سابق رکن صوبائی اسمبلی رؤف صدیقی سمیت دیگر ملزمان عبدالستار، اقبال ادیب خانم اور عمر حسن کو عدم شواہد پر بری کردیا تھا۔ سزا یافتہ ملزمان نے سزاؤں اور بری ہونے والے ملزمان کے خلاف پراسیکیوشن نے اپیل دائر کی جبکہ سرکار نے 4 ملزمان کی بریت کیخلاف اپیل دائر کی تھی۔
کراچی کے علاقے بلدیہ ٹاؤن کی فیکٹری علی انٹرپرائزز میں 11 ستمبر 2012ء کو آگ لگنے کے واقعے میں خواتین سمیت 259 افراد جاں بحق ہوگئے تھے جبکہ 300 سے زائد زخمی ہوئے تھے، مرنے والوں میں کئی گھروں کے واحد کفیل بھی شامل تھے۔