1971ء کی پاک بھارت جنگ میں دہشت و خون کی ہولی کھیلنے والے بھارتی اور ان کے آلہ کار مکتی باہنی کے دہشتگردوں نے مشرقی پاکستان میں انسانی حقوق کی ایسی خلاف ورزیاں کیں جو منظر عام پر نہ آسکیں۔
اس حوالے سے پاکستان آرمی کے غازی آفیسر لیفٹیننٹ جنرل (ر) غلام مصطفیٰ 1971 ء کے مشرقی پاکستان میں حالات اور آپ بیتی سناتے ہوئے کہتے ہیں کہ 1970ء کی دہائی میں مشرقی پاکستان کی فضاء میں تناؤ محسوس کیا جاسکتا تھا ، سائیکلون کے آنے کے بعد حالات اور خراب ہوگئے، مارچ 1971 ء میں مشرقی پاکستان میں موجود آرمی کی تعداد 30 سے 32 ہزار تک تھی جن میں 30فیصد انتظامی اہلکار بھی شامل تھے لہٰذا لڑاکا فورس کی تعداد 20 سے 22 ہزار سے زائد نہ تھی۔
لیفٹیننٹ جنرل ( ر ) غلام مصطفیٰ نے بتایا کہ ہم مارچ تا 16 دسمبر 1971ء تک دستیاب لڑاکا فورس کے ساتھ جنگ میں مصروف رہے، جب بنگالیوں نے حقیقاً ہتھیار اٹھائے تو وہ لمحات آج بھی میرے لئے تکلیف دہ ہیں کیونکہ پشتو اور اردو بولنے والے جو پاکستانی تقسیم ہند سے وہاں آباد تھے ان کو بے دردی سے قتل کردیا گیا۔
ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل نے بتایا کہ مشرقی پاکستان میں اردو بولنے والے بنگالیوں کی کثیر تعداد کوبے دردی سے شہید کر دیا گیا، میں اس کا چشم دید گواہ ہوں ، ان بچوں کی دردناک آوازیں آج بھی میرے کانوں میں گونجتی ہیں جو 52 سال گزرنے کے باوجود بھی میں نہیں بھول پایا۔
غلام مصطفیٰ نے بتایا کہ میری یونٹ میں ایسے بنگالی آفیسرز تھے جو جنگ میں ہمارے ساتھ شامل رہے اور جنگی قیدی بھی بنے انہیں مشرقی پاکستان میں شامل ہونے کا کہا جاتا رہا لیکن انہوں نے انکار کردیا اور ہمارے ساتھ مغربی پاکستان آگئے، پاکستان آرمی پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے حوالے سے لگائے گئے الزامات اگر سچ ہوتے تو کیا وہ ہمارے ساتھ شامل رہتے۔
انہوں نے بتایا کہ خوش قسمتی سے ہم تو واپس پاکستان آگئے لیکن بھارتی اور بین الاقوامی میڈیا کی جانب سے دنیا کو بتایا جانے والا جھوٹ اس قدر پھیل چکا تھا کہ ہم پر یقین نہیں کیا گیا ، درحقیقت ہمارے خلاف فساد بھارتی سرپرستی میں دہشتگرد ذہنیت کے حامل بنگالیوں نے برپا کیا اور الزام پاکستان آرمی پر لگا دیا۔
ان کا کہنا ہے کہ یہ بات افسوسناک ہے مگر جو ہوا وہ تاریخ کا حصہ ہے لیکن ایسا نہیں ہوا جیسا کہ دنیا کو یقین دلایا جا تا ہے ، کیا ہم پاکستانی وحشی اور غیر انسانی لوگ ہیں، نہیں ہم ایسے نہیں ہیں، پاکستان کیخلاف یہ پروپیگینڈہ 1971ء سے بہت پہلے شروع کردیا گیا اور بدقسمتی سے اس وقت پاکستانی میڈیا اتنا طاقت ور نہیں تھا اور دنیا کو جو کچھ بھی بتایا گیا وہ بھارتی ذرائع ابلاغ نے بتایا جبکہ وہ مشرقی پاکستان میں موجود ہی نہیں تھا۔
ان کے مطابق بھارتی مصنفہ شرمیلا بوس نے میرا انٹرویو لیا اور مجھے برطانوی اخبار ”دی گارڈین“ کا صفحہ اول دکھایا جس میں مشرقی پاکستان کے علاقے جیسور میں پڑی لاشوں کومعصوم بنگالی دکھایا گیا حالانکہ وہ لاشیں مشرقی پاکستان میں رہائش پذیر پشتو بولنے والوں کی تھیں جنہیں مکتی باہنی کے دہشتگردوں نے بے دردی سے قتل کیا تھا۔