پہلے نیب قانون میں پے درپے ترامیم اور اب سپریم کورٹ میں زیر التوا اپیل کے باعث پیدا ہونے والی غیر یقینی صورتحال میں کرپشن کے 300 سے زائد مقدمات پھنس کر رہ گئے۔ جعلی اکاؤنٹس جیسے میگا کرپشن کیسز بھی 4 سال تک صرف عدالتوں میں جاتے اور واپس آتے رہے مگر فیصلہ نہ ہوا۔
کرپشن کےمقدمات کو منطقی انجام تک پہنچانا خواب ہی بن کر رہ گیا۔ مقدمات کی فائلوں پر پے درپے قانون میں ہوئی ترامیم کی گرد جمنے لگی۔ پی ٹی آئی دور میں دو ترمیمی آرڈیننس اور پھر پی ڈی ایم کی تین ترامیم، 500 ارب روپے سے زائد مالیت کے سینکڑوں نیب مقدمات عملاً غیر فعال ہو کر رہ گئے۔
دستاویزات کے مطابق 309 مقدمات غیر فعال ہیں۔ نیب ترامیم کالعدم قرار دیئے جانے سے پہلے رواں برس 203 میں سے191 انکوائریاں بھی بند کردی گئیں۔ اس دوران صرف تین نئے ریفرنس عدالتوں میں دائر کئے جا سکے۔ جعلی اکاؤنٹس کے کیسز بمشکل 4 سال میں فرد جرم عائد ہونے تک پہنچے مگر گزشتہ ڈیرھ سال سے کسی گواہ کا بیان ریکارڈ ہوا اور نہ ہی جرح ہو سکی۔
دو ہزار بائیس ترامیم کے بعد مقدمات نیب کو لوٹائے گئے تو ستمبر 2023 میں ترامیم کالعدم ہونے سے ریکارڈ دوبارہ عدالتوں میں چلا گیا۔ اس پر سپریم کورٹ میں اپیل دائر ہوئی تو عدالت عظمی نے نیب کورٹس کو حتمی فیصلوں سے روک دیا۔
آصف علی زرداری، یوسف رضا گیلانی، شاہد خاقان عباسی ، مفتاح اسماعیل اور راجہ پرویزاشرف کے مقدمات کا مستقبل قریب میں بھی فیصلے کا امکان نہیں۔ اومنی گروپ، حسین لوائی اور سندھ بینک منی لانڈرنگ کیسز کا بھی یہی حال ہے۔