امریکہ سے اچھی خبریں آرہی ہیں۔ دعا گو ہیں کہ یہ سلسلہ تادیر اور پائیدار رہے۔ ماضی جو تلخ بھی ہے اور تکلیف دہ بھی لوٹ کر نہ آئے۔ ٹرمپ کارڈ چلتا رہے اور راوی چین کی بانسری بجاتا رہے۔ خدا جب مہرباں ہوتا ہے تو سب راستے صاف ہو جاتے ہیں۔ کامیابیاں مقدر بن جاتی ہیں اور ان کامیابوں کا کریڈٹ لینے کے لیے ہر کوئی سر فہرست بننے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ ہمارے ہاں سر فہرست بننے کا کوئی جھگڑا ہی نہیں ، سب کا اتفاق ہے اور کیا حسن اتفاق ہے کہ سب کی دھن، سر اور ساز ایک ہیں۔ چلیں اچھا ہے کہ کسی معاملے پر تو اتفاق ہوا یہ اور بات ہے کہ لبوں پر کچھ اور کان میں ہونے والی سرگوشیوں میں کچھ اور۔ لگ بھگ ایک سال قبل کسی کو یہ گمان بھی نہ تھا کہ حالات اس طرح بدلیں گے اور بدلتے چلے جائیں گے۔ امریکی انتخابات کے موقع پر پاکستان میں موجود حکمراں اضطراب اور دیگر انتظار کی کیفیت میں تھے ایک کو تشویش تھی تو دوسرے کو امید خیر سال بدلا ماحول بدلا اور وہ کچھ ہوا جو کسی کے تصور میں بھی نہ تھا۔
ٹرمپ کارڈ چلا اور ایسا چلا کہ سب دیکھتے رہ گئے۔ علاقائی صورتحال میں ڈرامائی تبدیلی واقع ہوئی ٹرمپ سے دوستی کا دم بھرنے والے نریندر مودی کو دنیا بالخصوص اپنے ہی ملک میں عزت بچانا مشکل ہو گئی ٹرمپ کا نام مودی کی چھیڑ بن گیا۔ پاکستان سے جنگ مودی کی سیاست اور بھارت دونوں کو لے ڈوبی اپنے چہرے سے سب کو ڈرانے والا خطے کا چوہدری منہ دکھانے کے قابل نہ رہا۔ فرانسیسی بھی کہنے لگے کہ بھائی جہاز اڑانا نہیں آتا تھا تو ہمارا بیڑا غرق کیوں کر دیا۔ چین کی گڈی بھی چڑھ گئی۔ مسلم ممالک بھی ششدررہ گئے۔ خیر جب اللہ کسی کو عزت دینا چاہتا ہے تو کون رکاوٹ بن سکتا ہے پہلی مرتبہ ایسا لگا کہ پاکستانی سفارت خانے بھی کچھ کرتے ہیں ورنہ ٹریک ریکارڈ تو اوورسیز پاکستانیوں کو تنگ کرنے کا ہی تھا۔
صورتحال کو امریکی صدر نے بھارت پر دباؤ بڑھانے کے لیے استعمال کیا اور خوب کیا "مزے بھی خوب لیے" پوری دنیا کو بتایا کہ بھائی اگر میں جنگ نہ رکواتا تو بھارت کو اور مار پڑنا تھی۔ ٹیرف بڑھانے کے ایسے اعلانات کیے کہ بھارتی جھولی اٹھا کر مودی کو بد دعائیں دینے لگے کہ "کہاں لے آیا یہ شخص ہمیں" پاکستان نے ہر کارڈ خوب کھیلا پہلگام واقعے کی تحقیقات ،بھارتی ریاستی دہشت گردی کے ثبوت ،عالمی معاہدوں کے خلاف ورزی کی کہانی ،نوبل انعام کے لیے صدر ٹرمپ کے نامزدگی ،کرپٹو کارڈ اور بہت کچھ ۔کامیابی ملی اور خوب ملی مگر ساتھ ساتھ خوشامد کے درجے بھی بلند ہوتے چلے گئے درباری اور خوشامدی اونچے راگوں میں گا رہے ہیں یہ اونچے راگ حکمرانوں کے کان بند کر دیتے ہیں اور اس سرور میں وہ ایسے ڈوبتے ہیں کہ پھر عموما تاریخ بن جاتے ہیں۔
صدر ٹرمپ کمال مزاج رکھتے ہیں آنکھیں بدلتے ہیں تو ایسے کہ بندہ "مودی" بن جاتا ہے۔ ساتھ دیتے ہیں" تو شہباز شریف" اور بقول امریکی صدر "عظیم لیڈر" دنیا نے ہم پر جب بھی مہربانی کی اس کی وجہ "ضرورت" تھی ہماری نہیں ان کی۔" ضرورت ایجاد کی ماں ہوتی ہے"۔ نہیں رہتی تو" وہ" ہو جاتی ہے ۔ہمیں دنیا کے لیے اپنی ضرورت بنائے رکھنا ہے۔ مگر یہ بھی سوچنا ہے کہ ہم کب تک ضرورت کے محتاج رہیں گے تقدیر نے ہمیں پھر موقع دیا ہے۔ وقت سے فائدہ اٹھانے کا، خود کو تیار کرنے کا اور باعزت بننے کا مگر" کب تک "صرف اس وقت تک جب تک مزاج نہ بدلے اور "ضرورت۔" اگر ہم نے خود کو نہ بدلا تو پھر کسی اور کی ضرورت کے تحت ہم بدل دیے جائیں گے۔
طارق محمود 30 سال سے زائد عرصے سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ان دنوں سماء ٹیلی وژن میں ڈائریکٹر نیوز کے طور پر فرائض سر انجام دے رہے ہیں۔





















