سپریم کورٹ نے فیض آباد دھرنا عملدرآمد کیس کے حوالے سے وفاقی حکومت کی جانب سے بنائے گئے انکوائری کمیشن پر اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے کیس کی مزید سماعت 24 جنوری تک ملتوی کردی۔
بدھ کے روز سپریم کورٹ میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی سربراہی میں جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس امین الدین خان پر مشتمل تین رکنی بینچ نے فیض آباد دھرنا عملدرآمد کیس کی سماعت کی جبکہ سماعت کے دوران عدالتی نوٹس پر سربراہ عوامی مسلم لیگ شیخ رشید احمد بھی پیش ہوئے۔
سماعت کے دوران چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا سپریم کورٹ کو کوئی باہر سے کنٹرول کر رہا ہے؟ ۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ نظرثانی درخواست آجاتی ہے پھر کئی سال تک لگتی ہی نہیں، پھر کہا جاتا ہے فیصلے پرعمل نہیں کیا جا رہا کیونکہ نظرثانی زیرالتوا ہے۔
چیف جسٹس نے شیخ رشید احمد سے استفسار کیا کہ آپ اب بھی سچ نہیں بولیں گے کہ کس نے نظرثانی دائرکرنے کو کہا تھا؟ جس پر سابق وفاقی وزیر نے جواب دیا کہ مجھے کسی نے بھی نظرثانی درخواست دائر کرنے کو نہیں کہا تھا۔
جلاؤ گھیراؤ کا کہتے ہیں تو اس پر کھڑے بھی رہیں ناں، چیف جسٹس
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ جو ممبر نیشنل اسمبلی ( ایم این اے ) اور وزیر رہ چکے وہ تو ذمہ دار ہیں ناں، جلاؤ گھیراؤ کا کہتے ہیں تو اس پر کھڑے بھی رہیں ناں، کہیں نا کہ ہاں میں نے حمایت کی تھی۔
یہ بھی پڑھیں۔ چلہ پورا ہو گیا مگر اس کے اثرات ابھی تک باقی ہیں، شیخ رشید احمد
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ دوبارہ موقع ملے تو کیا پھر ملک کی خدمت کریں گے؟ جس پر شیخ رشید جواب دینے لگے تو چیف جسٹس نے انہیں روسٹرم پر آکر بولنے سے روک دیا۔
چیف جسٹس نے مکالمہ کیا کہ آپ سے نہیں وکیل سے پوچھ رہے ہیں جبکہ جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ شیخ رشید ایک سینئر پارلیمنٹرین ہیں، آپ کے حوالے سے عدالت نے کچھ نہیں کہا۔
بعدازاں، عدالت عظمیٰ نے شیخ رشید کی نظرثانی درخواست واپس لینے پر خارج کر دی۔
انکوائری کمیشن کا نوٹیفکیشن پیش
سماعت کے دوران اٹارنی جنرل منصور اعوان نے کیس سے متعلق وفاقی حکومت کی جانب سے بنائے گئے انکوائری کمیشن کا نوٹیفکیشن پیش بھی کیا اور اس کے ٹی او آر پڑھ کر سنائے۔
یہ بھی پڑھیں۔فیض آباد دھرنا کیس، ذمہ داروں کے تعین اور کارروائی کیلے کمیشن تشکیل
اٹارنی جنرل نے بتایا کہ وفاق اور تمام صوبائی حکومتیں کمیشن سے تعاون کرنے کی پابند ہیں جبکہ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ وزارت دفاع میں سے کسی کو کمیشن میں کیوں شامل نہیں کیا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ یہ کمیشن آنکھوں میں دھول بھی بن سکتا ہے اور نیا ٹرینڈ بھی بناسکتا ہے ، پیمرا حکومت اور اداروں کو ذمہ داری بتائی تھی وہ نظرثانی میں آگئے تھے۔
ہم وفاقی حکومت کو کوئی ہدایت نہیں دیں گے، جسٹس اطہر من اللہ
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ہم وفاقی حکومت کو کوئی ہدایت نہیں دیں گے جبکہ چیف جسٹس نے کہا کہ ہم صرف اپنے تحفظات بتا رہے ہیں ۔
سابق چیئرمین پیمرا ابصار عالم کا تحفظات کا اظہار
اس موقع پر سابق چیئرمین پیمرا ابصار عالم کی جانب سے بھی انکوائری کمیشن پر تحفظات کا اظہار کر دیا گیا اور انہوں نے سوال اٹھایا کہ کیا کمیشن 2 ریٹائرڈ افسران سابق ڈی جی آئی ایس آئی،چیف جسٹس یا وزیر اعظم کو بلا سکے گا؟۔
چیف جسٹس نے ان سے اسفتسار کیا کہ آپ کے شک کی بنیاد کیا ہے ؟ آپ 2 مہینے بعد کمیشن کا کام دیکھ کر جو کہنا ہوا کہہ سکتے ہیں ، ہم امید کرتے ہیں کمیشن سے متعلق آپ کے خدشات غلط ثابت ہوں۔
ابصار عالم نے جواباً کہا کہ میں بھی اسی امید پر انتظار کروں گا۔
قوم اچھے کی امید کرتی ہے، چیف جسٹس
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ قوم اچھے کی امید کرتی ہے، بلانےپر کوئی نہ آئے تو کمیشن اسے گرفتار بھی کرا سکتا ہے ، ابھی کمیشن نے کام شروع نہیں کیا تو شک کیسے ظاہر کریں؟۔
ابصار عالم نے جواباً کہا کہ میں اس ملک کی تاریخ کی بنیاد پر شک ظاہر کررہا ہوں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ جسے سچ نکلوانا ہوتا ہے وہ نکلوا لیتا ہے ، سچ نکلوانا ہو تو تفتشی افسر بھی نکلوا لیتا ہے، سچ نہ نکالنا ہو تو آئی جی بھی نہیں نکلوا سکتا جبکہ جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ کمیشن کو اختیار ہے وہ کسی کو بھی بلا سکتا ہے اور چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا کوئی استثنیٰ تو نہیں دیا کہ کمیشن کسی کو نہیں بلا سکتا ؟ جس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ کمیشن سب کو بلا سکتا ہے، ہم نے کوئی استثنیٰ نہیں دیا ۔
ٹی او آرز میں ترمیم کی یقین دہانی
اٹارنی جنرل نے تحقیقاتی کمیشن کے ٹی او آرز میں ترمیم کی یقین دہانی کرائی اور بتایا کہ نظرثانی درخواستیں ایک ساتھ دائرہونا کیا اتفاق تھا؟ ٹی او آرز میں یہ سوال شامل ہوگا جس پر سپریم کورٹ نے انکوائری کمیشن پر اعتماد کا اظہار کیا اور چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ایک اچھا قدم اٹھایا گیا ہے ، کمیشن پر ابھی سے شک کرنا مناسب نہیں ، 4سال سے کچھ ہمارے سامنے نہیں آیا ، 60 دن میں اب رپورٹ آجائے گی۔
مزید سماعت 22 جنوری تک ملتوی
بعدازاں، عدالت عظمیٰ نے کیس کی مزید سماعت 22 جنوری تک ملتوی کرتے ہوئے آئندہ سماعت پر تحقیقاتی کمیشن کی رپورٹ طلب کرلی۔