امریکی وزارت خارجہ نے اعلان کیا ہے کہ وہ غزہ پٹی سے آنیوالے افراد کے تمام وزٹ ویزوں کو وقتی طور پر روک رہی ہے، جس کا مقصد ایک "جامع اور محتاط جائزہ" لینا ہے۔
امریکی وزارت خارجہ نے بتایا ہے کہ حالیہ دنوں میں صرف "چند" عارضی ویزے طبی اور انسانی مقاصد کیلئے جاری کیے گئے ہیں، لیکن کسی مخصوص تعداد کا ذکر نہیں کیا گیا۔
سرکاری ویب سائٹ پر امریکا کے ماہانہ ویزوں کی تعداد کے تجزیے سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس سال کے آغاز سے امریکا نے فلسطینی اتھارٹی کے پاسپورٹ ہولڈرز کیلئے بی ون اور بی ٹو ویزوں کے 3800 سے زائد اجازت نامے دیے ہیں، جن میں سے 640 ویزے مئی میں جاری کیے گئے، یہ ویزے غیر ملکیوں کو امریکا میں علاج کی سہولت فراہم کرتے ہیں۔
دباؤ کے بعد فیصلہ
یہ اقدام امریکی وزارت خارجہ کی جانب سے اس وقت سامنے آیا جب دائیں بازو کی متحرک شخصیت لورا لومر نے سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو پوسٹ کی۔ ویڈیو میں فلسطینی دکھائے گئے جو دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ غزہ کے مہاجر ہیں اور سان فرانسسکو اور ہیوسٹن کے ذریعے امریکا پہنچ رہے ہیں۔
لومر کے اس بیان نے کچھ ریپبلکن سیاستدانوں کو برہم کردیا۔ ٹیکساس کے رکن کانگریس چیپ رائی نے اس معاملے کی تحقیقات کا عندیہ دیا جبکہ فلوریڈا کے رکن کانگریس رینڈی فائن نے اسے "قومی سیکیورٹی کیلئے خطرہ" قرار دیا۔
تنقید اور ردعمل
امریکا اسلامی تعلقات کونسل نے اس اقدام کی شدید مذمت کی اور اسے ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے "جان بوجھ کر ظلم کرنے" کی ایک مثال قرار دیا۔
فلسطین ریلیف ایسوسی ایشن نے بھی خبردار کیا کہ ویزے معطل کرنے کا فیصلہ زخمی اور بیمار بچوں کو غزہ سے امریکا لانے اور ہنگامی طبی علاج فراہم کرنے کے مواقع ختم کر دے گا۔
ایسوسی ایشن نے کہا کہ یہ پالیسی ناقابل تلافی نقصان پہنچائے گی اور 30 سال سے جاری ہمارے مشن کو متاثر کرے گی، جس کا مقصد شدید زخمی یا بیمار بچوں کو امریکا لانے اور ان کی زندگی بچانے والا علاج فراہم کرنا ہے۔
یہ پہلا موقع نہیں جب ٹرمپ انتظامیہ نے لومر کے دباؤ کے بعد اقدامات کیے ہوں، جولائی کے آخر میں بھی لومر کی رپورٹ کے بعد پینٹاگان نے ویسٹ پوائنٹ ملٹری کالج میں سینئر اساتذہ کی تقرری منسوخ کردی تھی۔






















