کراچی کے علاقے لیاری بغدادی میں عمارت کے ملبے تلے دبی مزید 11 لاشیں نکال لی گئیں جبکہ اموات کی تعداد 22 ہوگئی ہے۔
ہفتے کے روز ریسکیو ٹیموں نے مزید گیارہ لاشیں ملبے سے نکالی ہیں جبکہ بارہ زخمی اسپتالوں میں زیرعلاج ہیں۔
دس سے بارہ افراد کے اب بھی ملبے تلے دبے ہونے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے، تنگ گلیوں کی وجہ سے ریسکیو آپریشن میں مشکلات کا سامنا ہے اور امدادی کارروائیاں سست روی کا شکار ہیں۔
اس سنگین صورتحال کے پیش نظر پاک فوج کی انجینئرنگ کور کی ٹیم نے بھی جائے وقوعہ کا دورہ کیا اور عمارت کے ڈھانچے، استعمال شدہ مواد، اور دیگر پہلوؤں کا جائزہ لیا۔
گرنے والی عمارت کا ملبہ اب تک مکمل طور پر نہ اٹھایا جا سکا جس کی وجہ سے متاثرہ خاندانوں میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی ہے۔
مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ تنگ گلیوں اور محدود وسائل کی وجہ سے ریسکیو ٹیمیں اپنا کام مؤثر انداز میں انجام نہیں دے پا رہیں۔
اس سانحے نے ایک اور سنگین سوال کھڑا کر دیا ہے کہ آیا یہ عمارت کتنے منزلوں پر مشتمل تھی۔
سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی (ایس بی سی اے) کے ریکارڈ کے مطابق عمارت میں تین فلور تھے، لیکن مکینوں کے مطابق دو اضافی منزلیں غیرقانونی طور پر تعمیر کی گئی تھیں اور پینٹ ہاؤس چھٹے نمبر پر موجود تھا۔
اس طرح کل چھ منزلوں کی عمارت ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔
اس انکشاف کے بعد سوال اٹھ رہا ہے کہ غیرقانونی طور پر تین اضافی منزلوں کی تعمیر کی اجازت کس نے دی؟ این او سی کس کے دستخط سے جاری ہوا؟ متعلقہ افسر کون تھا؟ ان سوالات کے جوابات اب تک سامنے نہیں آئے، اور ڈی جی ایس بی سی اے اس معاملے پر مکمل خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔






















