وزیر اعظم شہباز شریف کے مشیر اور مسلم لیگ ( نواز ) کے سینئر رہنما رانا ثناء اللہ کا کہنا ہے کہ پاکستان کو ابراہم اکارڈ سے متعلق عرب ممالک کے ساتھ جانا چاہیے۔
سماء کے پروگرام ’ ندیم ملک لائیو ‘ میں ابراہم اکارڈ سے متعلق سوال کے جواب میں وزیر اعظم کے مشیر رانا ثناء اللہ کا کہنا تھا کہ ابھی تک اس معاملے پر پارٹی یا حکومت کی جانب سے کوئی رائے قائم نہیں کی گئی اور نہ ہی اس ایشو کو ابھی زیر بحث لایا گیا ہے۔
ابراہم اکارڈ پر اپنی ذاتی رائے کا اظہار کرتے ہوئے ن لیگی رہنما کا کہنا تھا کہ ’ مدعی سست اور گواہ چست والا معاملہ نہیں ہونا چاہیے، فلسطین میں بہت خون بہا ہے، وہاں پر بہت ظلم ہوا ہے اب وہاں پر امن قائم ہونا چاہیے اور وہاں پر بہنے والا خون بند ہونا چاہیے۔‘
رانا ثناء اللہ کا کہنا تھا کہ ’ اس مقصد کے لیے وہاں کوئی بھی یا کسی بھی قسم کا معاہدہ ہوتا ہے، ابراہم معاہدہ ہو چاہے کوئی اور ، یا وہاں پر براہ راست ملوث قوتوں کے درمیان کوئی معاہدہ یا فلسطین کے ساتھ موجود عرب ممالک چاہیں یا اس پر متفق ہیں تو میں سمجھتا ہوں کو پاکستان کو، سعودی عرب کو، ترکیہ کو اور اس کے ساتھ اگر ایران کو بھی شامل کرلیا جائے یہ بڑے ممالک ہیں، ملائیشیا بھی ہے، تو ان کو مشترکہ طور پر کوئی فیصلہ کرنا چاہیے اور پاکستان کو مسلم ورلڈ کے ساتھ جانا چاہیے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’ اگر سعودی عرب، ایران، ترکیہ اور عرب ممالک کوئی فیصلہ کرتے ہیں تو پاکستان کو ان کے ساتھ جانا چاہیے‘۔
پاکستان، سعودی عرب، ترکی اور ایران کو ابراہم اکارڈ سے متعلق مشترکہ فیصلہ کرنا چاہیے، پاکستان کو ابراہم اکارڈ سے متعلق عرب ممالک کے ساتھ جانا چاہیے، رانا ثنا اللہ مشیر وزیراعظم سیاسی امور#SamaaTv #Pakistan #NadeemMalikLive pic.twitter.com/Ho86rFesXO
— Nadeem Malik 🇵🇰 (@nadeemmalik) July 2, 2025
ابراہم اکارڈ کیا ہے ؟
ابراہم اکارڈ 2020 میں طے پانے والے معاہدوں کا ایک سلسلہ ہے جس کے تحت اسرائیل اور کئی عرب ممالک، بشمول متحدہ عرب امارات، بحرین اور مراکش نے سفارتی تعلقات قائم کیے۔
یہ معاہدے امریکہ کی ثالثی میں طے پائے اور ان کا نام ابراہیمی مذاہب (یہودیت، اسلام اور عیسائیت) کے مشترکہ جدِ اعلیٰ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے حوالے سے رکھا گیا۔
اکارڈز کا مقصد مشرق وسطیٰ میں امن، باہمی تعاون، تجارت اور ثقافتی تبادلے کو فروغ دینا ہے۔
تاہم، فلسطینی تنازع کے حل میں پیش رفت نہ ہونے پر کئی عرب ممالک میں ان معاہدات پر تنقید بھی کی جاتی ہے۔






















