تحریر ; اسلم خان کراچی
دنیا کے مختلف ممالک میں جیل سے قیدیوں کے فرار کے سیکڑوں واقعات رونما ہوئے ہیں،قیدیوں نے فرار کیلئے کہیں سرنگیں کھودیں،کہیں جیل کے ملازموں کا بھیس بدلا، کبھی جیل کی دیواروں کو اڑایا گیا اور کبھی بغاوت ہوئی۔ 1244ء میں ویلش شہزادہ گروفڈ (Gruffydd ap Llywelin Fawr)ٹاور آف لندن سے فرار کی کوشش میں مرگیا تھا۔ وہ انگریز حکمرانی کے خلاف غداری کے جرم میں ٹاورآف لندن میں قید کیا گیا تھا۔اس نے فرار کیلئے چادروں اور کپڑوں سے بنی ایک دیسی ساختہ رسی بنائی لیکن وزن زیادہ ہونے سے رسی ٹوٹ گئی اور وہ کھڑکی سے گر کرمرگیا تھا۔ 22 مئی 1938 ء کو ہسپانوی خانہ جنگی کے دوران 30سے زائد قیدیوں نے جیل توڑنے کیلئے دیگر قیدیوں کو بغاوت پر اکسایا۔ 793 قیدی فرار ہو گئے لیکن صرف تین فرانسیسی سرحد تک پہنچنے میں کامیاب ہو سکے۔ 585 گرفتار ہوئے، 211 مر گئے اور گرفتار ہونے والوں میں سے 14 کو سزائے موت سنائی گئی۔جون 2015ء میں تہاڑ جیل نئی دہلی سے فرار کیلئے دو قیدیوں نے بیرک کے فرش میں سرنگ کھودی اور ایک نالے میں رینگتے ہوئے فرار ہوئے۔ایک دلچسپ فراراسپین کے ساحلی شہرسان سپسٹین کی جیل سے تھا۔7 جولائی 1985 میں جوزیبا سریونانڈیا اور آئیاکی پکابیا نامی قیدیوں نے فرار کیلئے انوکھا طریقہ اختیار کیا۔ جیل میں ایک کنسرٹ ہورہا تھا جس کیلئے میوزیکل سامان لایا گیا۔ کنسرٹ ختم ہونے پردونوں قیدیوں نے خود کو دو لاؤڈ اسپیکر کے اندر چھپا لیا، کنسرٹ ختم ہونے کے بعد میوزیکل سامان باہر گیا تو دونوں قیدی بھی لاؤڈ اسپیکر کے ساتھ جیل سے باہر نکل گئے۔
جیل توڑنے کے جتنے واقعات ہوئے ان میں قیدیوں کوفرار کیلئے منصوبہ بندی اور عملدرآمد میں ہفتوں اورکئی بار مہینوں کا وقت لگا،لیکن پیر اور منگل کی درمیانی شب یعنی دو اور تین جون کی درمیانی شب کراچی کی ملیر جیل سے قیدیوں کا فرار ہونا اپنی نوعیت کا ایک حیرت انگیز واقعہ ہے جس میں بغیر کسی منصوبہ بندی کے قیدیوں کا ایک ہجوم جیل توڑ کر فرار ہوگیا،آخریہ ہوا کیسے؟،قدرتی آفت کوقیدیوں نے فرار کیلئے کیسے استعمال کیا؟، آہنی دروازے اور سیکیورٹی اہلکار ان قیدیوں کے فرار کو کیوں روک نہ سکے؟،اس معاملے پر تحقیقات کیلئے قائم کمیٹی نے کام شروع کردیا ہے۔ لیکن اس رات کب کیا ہوا؟، اس کا جائزہ لیتے ہیں۔
یکم جون کی رات کو زلزلے کے پہلے جھٹکے سے دو جون کی رات تک زلزلے کے 12 جھٹکے لگ چکے تھے۔24 گھنٹے کے دوران زلزلے کے لگ بھگ ایک درجن جھٹکوں سے جیل کی بیرکس میں دراڑیں پڑگئی تھیں۔ دو جون کی رات سوا گیارہ بجے کے قریب زلزلے کا تیز جھٹکا لگا جس پر بیرکس میں قیدیوں نے چیخنا چلانا شروع کیا کہ انہیں باہر نکالا جائے، بیرکس کی دیواریں یا چھتیں گرسکتی ہیں۔چیخ و پکار کرتے قیدیوں نے ایک بیرک کا دروازہ گرانے کیلئے زورلگانا شروع کردیا، قریب موجود اہلکاروں کے ہاتھ پاؤں پھول گئے اور فوری طور پر ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ ذوالفقار پیرزداہ اور سپرنٹنڈنٹ ارشد شاہ کو آگاہ کیا گیا اور وہ جیل احاطے میں موجود اسٹاف کالونی سے وہاں پہنچے۔لیکن اس دوران بیرک کا تالا ٹوٹ چکا تھا اور سو سے زائد قیدی بیرک کے باہر تھے، باہر نکلنے والے قیدیوں نے دوسری بیرک کا تالا توڑ دیا اس بیرک سے بھی سو سے زائد قیدی باہر نکل گئے۔ باہر نکلنے والے قیدیوں کی تعداد ڈھائی سو کے لگ بھگ ہوگئی جس کے بعدمعاملات سیکیورٹی اہلکاررں کے ہاتھوں سے نکلنا شروع ہوگئے، ایک کے بعد ایک بیرک سے قیدی باہر آتے گئے، قیدیوں نے پولیس اہلکاروں سے چابیاں چھین کر بیرک کے تالے کھولے، ایک بیرک کے تالے لوہے کی راڈ سے توڑ دیئے۔ بارہ بجے کے لگ بھگ 40 سے 50 منٹ میں ڈیڑھ سے دو ہزار قیدی بیرکوں سے باہر تھے۔ملیر جیل میں اس رات قیدیوں کی تعداد6 ہزار سے زائد تھی،جیل میں پولیس نفری کی بات کریں تو 220 اہلکار تین شفٹوں میں تعینات ہیں، یعنی ایک شفٹ میں 73 اہلکار۔اور شام کو پانچ بجے جیل بند ہونے کے بعد رات میں نفری ویسے ہی کم ہوتی ہے اس رات بھی 60 کے قریب جیل پولیس اہلکار تھے۔،صورتحال یہ ہوگئی تھی کہ جس جگہ ڈیڑھ سے دو ہزار قیدی ہنگامہ آرائی کررہے تھے انہیں روکنے کیلئے ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ ذوالفقار پیرزادہ، سپرنٹنڈنٹ ارشد شاہ اور نو سیکیورٹی اہلکار موجود تھے۔اس دوران قیدیوں نے باہر نکلنے کیلئے اہلکاروں پر دھاوا بول دیا۔ ایک اہلکار سے ایس ایم جی چھین کر فائرنگ کی۔ ڈپٹی سپرنٹنڈٹ ذوالفقار پیرزادہ کو پیر اور ہاتھ پر دو گولیاں لگیں،سپرنٹنڈنٹ ارشد شاہ اور دیگر اہلکاروں کو بھی قیدیوں نے تشدد کا نشانہ بنایا۔ اہلکاروں نے بھی جوابی ہوائی فائرنگ اور قیدیوں کے قریب زمین پر گولیاں ماریں۔رات سوا بارہ بجے کے قریب قیدیوں نے فرار کیلئے باہر نکلنا شروع کیا۔ بیرکس کے ساتھ دیوار بیس سے پچیس فٹ بلند ہے قیدیوں نے اس بیرک کے قریب پہلا گیٹ توڑا، آفس بلاک میں توڑ پھوڑ کی، کمپیوٹرتوڑ دیئے۔ اس کے بعد ماڑی کا پہلا گیٹ آتا ہے۔ماڑی میں قیدیوں کی گنتی ہوتی ہے یہیں سے انہیں بیرکس میں بھیجا جاتا ہے۔ کچھ قیدیوں کی فیملی کی ملاقاتیں بھی ماڑی میں کرائی جاتی ہیں، قیدیوں نے ماڑی کا پہلا اور دوسرا دونوں گیٹ توڑ دیئے۔ اس کے بعد جیل کے مرکزی دروازے تک پہنچ گئے۔اس دوران اوپر چوکی پر موجود ایف سی کے اہلکار ہوائی فائرنگ اور زمین پر بھی فائر مار رہے تھے فائرنگ سے ایک قیدی ہلاک بھی ہوا۔ہنگامہ آرائی،فائرنگ کے دوران 216 قیدی بھاگ نکلنے میں کامیاب ہوگئے۔ فرار ہونے والوں میں 31 ملزمان ڈکیتی و اسٹریٹ کرائم میں ملوث تھے، 24 قیدی کارو موٹر سائیکل چوری میں گرفتار تھے، 16 ملزمان منشیات فروشی کے سنگین مقدمات میں ملوث تھے، آٹھ ملزمان جعلسازی، فراڈ، گیس چوری کے مقدمات میں سزایافتہ تھے، اقدام قتل، زیادتی اور دیگر جرائم میں ملوث 10 ملزمان بھی فرار ہوئے۔جیل میں ہنگامہ آرائی کے دوران طلب کی گئی ڈسٹرکٹ پولیس، رینجرز، ریپڈ ریسپانڈفورس کے اہلکار جیل پہنچ گئے اور صورتحال کو کنٹرول کیا گیا۔ ڈسٹرکٹ پولیس نے اناسی قیدیوں کو اسی رات واپس گرفتار کرلیا۔۔ فرار ہونے والے216قیدیوں میں سے 139واپس آگئے یا دوبارہ پکڑے گئے ۔۔ ایک قیدی نے خودکشی کی جبکہ جیل سے فرار76 قیدیوں کی تلاش اب بھی جاری ہے
اگر ڈسرکٹ پولیس اور دیگر سیکیورٹی اداروں کو پہلے طلب کرلیا جاتا تو اتنی بڑی تعداد میں قیدیوں کے فرار کی صورتحال سے بچا جاسکتا تھا۔
سندھ کی تاریخ کا سب سے بڑا جیل بریک حکومت سندھ کیلئے شرمندگی کا باعث ہے۔ تحقیقات کے دوران ڈسٹرکٹ جیل ملیر کے سی سی ٹی وی کیمرے خراب اور ناکافی ہونے کا انکشاف ہوا ہے، جیل حکام کی جانب سے محکمہ داخلہ سندھ کو گزشتہ سال اٹھارہ دسمبر کو سی سی ٹی وی کیمروں کی تنصیب کے حوالے سے خط بھی ارسال کیا گیا تھا۔ اس بات کی بھی تحقیقات ہونی چاہئے کہ بیرک کے باہر تالے اتنے مضبوط کیوں نہیں تھے کہ بیرک کے اندر قیدیوں کی دھینگامشتی میں ٹوٹ گئے۔ماڑی اور بیرک کے قریب چارگیٹ کیسے ٹوٹ گئے،یہاں ہائی پروفائل قیدی نہیں لیکن قتل،ڈکیتی اور دیگر وارداتوں کے ملزمان تو ہیں۔ ایسے آہنی دروازے تو ہونے چاہئیں تھے کہ جو ریلے کی صورت میں آنے والے قیدیوں کے ہجوم کے دباؤ کو برداشت کرسکتے۔دوسری طرف حکومت نے آئی جی جیل قاضی نذیر کو عہدے سے ہٹادیا ہے،ڈی آئی جی اور ملیر جیل سپرنٹڈنٹ معطل کردیئے گئے۔فدا حسین مستوئی آئی جی جیل خانہ جات، محمداسلم ملک ڈی آئی جی جیل خانہ جات اورشہاب الدین صدیقی سپرنٹنڈنٹ جیل ملیر مقررکردیئے گئے ہیں۔وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے محکمہ داخلہ سندھ کوملیر جیل اور صوبے کی تمام جیلوں کا جامع سکیورٹی آڈٹ کرنے کی ہدایت کی ہے۔
کراچی میں چھ روز کے دوران زلزلے کے بتیس جھٹکے
قائدآباد،ملیر کھوکھراپار اطراف کے علاقوں میں یکم جون کو رات گیارہ بجکرپینتالیس منٹ پر اچانک خوف و ہراس پھیل گیا،زلزلے کے جھٹکے نے ان علاقوں کے مکینوں کو لرزا دیا۔لوگ گھروں سے باہر نکل آئے، چھ روز کے دوران ان علاقوں میں زلزلے کے بتیس جھٹکے آچکے ہیں۔ عمر ماروی گوٹھ سمیت کچھ علاقوں کے مکینوں نے اپنے اہل خانہ کو دوسرے علاقوں میں منتقل کرا دیا ہے۔ جامعہ کراچی کے شعبہ ارضیات کے ایسوسی ایٹ پروفیسر اور ماہر ارضیات ڈاکٹر عدنان کہتے ہیں جس شدت کے زلزلے کے جھٹکے کراچی میں محسوس کئے گئے اس طرح کا زلزلہ آنا عام بات ہے۔ کراچی میں زیر زمین فالٹ لائن مختلف وجوہات کی بنا پرمتحرک ہوسکتی ہے لیکن ایک اہم وجہ گذشتہ دس برسوں میں کراچی سے زیرزمین پانی کا نکالا جانابھی ہے۔ ڈاکٹرعدنان کے مطابق حالیہ دنوں میں زلزلے کے جھٹکے ملیر، ڈی ایچ اے، قائد آباد سمیت ان علاقوں میں زیادہ محسوس کئے گئے جہاں زیر زمین پانی نکالے جانے کی شرح زیادہ ہے۔ ڈاکٹر عدنان کہتے ہیں کراچی کی ڈائنامکس کے مطابق یہ قدرتی طورپر ایک محفوظ زون میں ہے یہاں کسی ہائی انرجی ریلیز کے امکانات نہیں ہیں اسی لئے یہاں یہ کہنا کہ 6، 7 یا 8 شدت کا زلزلہ آئے گا یہ غیر سائنسی بات ہوگی۔ 2001ء میں آنے والے زلزلے میں کراچی نے 6.3کا زلزلہ برداشت کیا تھا تو یہ قدرتی طور پر ایک تجربہ ہوچکا ہے کہ خدانخواستہ کراچی میں 6 درجہ کی شدت کا زلزلہ آیا تو یہاں کی تعمیرات اسے برداشت کرسکیں گی۔
پاکستان میٹرولوجیکل ڈپارٹمنٹ کے چیف میٹرولوجسٹ امیر حیدر لغاری کہتے ہیں لانڈھی کی تاریخی فالٹ لائن ہے۔ یہ ایکٹو ہو گئی ہے اس لیے زلزلے محسوس ہو رہے ہیں جب کوئی فالٹ لائن ایکٹو ہوتی ہے تو آہستہ آہستہ انرجی ریلیز کرتی ہے۔انرجی کم ہونے کی صورت میں آہستہ آہستہ یہ جھٹکے کم شدت کے ہو جاتے ہیں اور رک جاتے ہیں کم شدت کے زلزلے ایک سے دو دن میں ٹھیک ہو جاتے ہیں ضروری نہیں کہ زلزلے کا مقام فالٹ لائن کے اوپر ہو، ایکٹو فالٹ لائن کہیں سے بھی اپنی انرجی ریلز کر سکتی ہے۔ کراچی میں آنے والے یہ زلزلے لانڈھی کے نیچے موجود فالٹ لائن کی وجہ سے ہیں۔کراچی کی فالٹ لائن تھانہ بولا خان کے قریب بھی ہے اور کیر تھر کے قریب بھی مین باونڈری لائن ہے، اس فالٹ لائن پرآج تک بڑا زلزلہ نہیں آیا۔کراچی میں تاریخی طور پر کبھی کوئی بڑا زلزلہ نہیں آیا۔ سومیانی کے پاس تین پلیٹوں کا جنکشن ہے لیکن وہ زیادہ خطرناک نہیں۔ ماہرین کہتے ہیں کہ اگر پاکستان کے جنوبی علاقوں میں کہیں بڑے زلزلے کا امکان ہوا بھی تو وہ کراچی نہیں ہو گا۔بلوچستان میں سمندر میں عریبین اور یوریشین پلیٹ کی سرحد ہے وہ خطرناک ہے جہاں زلزلہ سونامی بن سکتا ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ کراچی تین پلیٹس (انڈین، یوروشیا اورعریبین) کی باؤنڈری پر واقع ہے اور اس کی ساخت نہ صرف زلزلوں سے نسبتاً محفوظ ہے بلکہ یہ سمندری طوفان کیلئے قدرتی رکاوٹ ثابت ہوتی ہیں۔






















