کسی بھی ملک کی ترقی کیلئے بہترین انفرااسٹرکچر کلیدی حیثیت رکھتا ہے، جدید دنیا میں عمارات اور شاہرات کو ترقی کا پیمانہ قراردیا جاتا ہے،پاکستان میں بھی انفرااسٹرکچر کی ترقی ہمیشہ سے معیشت کے استحکام اور عوامی سہولیات میں بہتری کی بنیاد رہی ہے۔ حیدرآباد-سکھر موٹر وے M-6 صرف ایک شاہراہ نہیں، ایک ایسا منصوبہ ہے جو سندھ اور پاکستان کی معیشت کو نئی سمت دے سکتا ہے۔ اس کی بروقت تکمیل نہ صرف سی پیک کو مکمل کرے گی بلکہ لاکھوں افراد کی زندگیوں میں مثبت تبدیلی لائے گی۔ بدقسمتی سے اس انتہائی اہم منصوبے کی تعمیر سیاسی اور انتظامی مسائل کے باعث طویل عرصے التواء کا شکار رہی۔یہ ایک ایسا منصوبہ ہے جس کی تکمیل سے سندھ کو بے تحاشا تجارتی و معاشی فوائد حاصل ہوں گے۔ حیدرآباد۔ سکھر موٹر وے، کراچی سے پشاور تک بننے والے 1650 کلومیٹر طویل شاہراہ کے نیٹ ورک کا آخری بڑا حصہ ہے۔ 6 لین M6 موٹر وے جامشورو، حیدرآباد، مٹیاری، شہید بینظیر آباد، نوشہرو فیروز، خیرپور اور سکھر اضلاع سے گزرے گا اور تجارتی ٹریفک کو پنجاب، خیبرپختونخوا اور چین کی سرحدوں تک پہنچانے میں کلیدی کردار ادا کرے گا۔راستے میں آنے والے شہروں جیسے کہ نوشہرو فیروز، مٹیاری، خیرپور وغیرہ میں ترقیاتی سرگرمیاں تیز ہوں گی، ان تمام ہی علاقوں میں تعلیم، صحت اور تجارت کے مواقع بڑھیں گے۔بہتر انفراسٹرکچر سے بیرونی سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال ہوگا، جو صنعتی زونز کے قیام اور نئی فیکٹریوں کی بنیاد بن سکتا ہے۔سندھ کے ثقافتی مقامات جیسے کوٹ ڈیجی، موئن جو دڑو اور دیگر آثار قدیمہ تک رسائی آسان ہو جائے گی، جو ان علاقوں میں سیاحت کو بڑھاوا دے گا۔سکھر اور گرد و نواح کے علاقے زرعی پیداوار کے گڑھ ہیں اس موٹر وے کی بدولت زرعی پیداوار تیز رفتاری سے صنعتی علاقوں تک پہنچائی جا سکے گی، جس سے برآمدات میں اضافہ اور قیمتوں میں توازن پیدا ہو گا۔306 کلومیٹر طویل موٹر وے کے تعمیراتی مرحلے میں ہزاروں افراد کو روزگار میسر آئے گا جبکہ مکمل ہونے کے بعد سروس ایریاز، ٹول پلازہ، اور تجارتی سرگرمیوں کے ذریعے مقامی افراد کیلئے مستقل ذریعہ معاش پیدا ہوگا۔منصوبے کے تحت 15 انٹرچینج،اور 12 سروس ایریاز ہونگے۔نئی موٹر وے سے آمد و رفت کا وقت کم ہوگا، ایندھن کی بچت ہوگی اور گاڑیوں کے اخراجات میں کمی آئے گی، جس کا مثبت اثر اشیائے خور و نوش کی قیمتوں پر بھی پڑے گا۔یعنی اس منصوبے سے اس پر سفر کرنے والے ہی نہیں اس کے اطراف رہنے والے لاکھوں افراد براہ راست مستفید ہوں گے۔
وفاقی وزیر مواصلات عبدالعلیم خان اور وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کی حالیہ ملاقات میں M-6 منصوبے کی فوری تکمیل پر مشاورت ہوئی۔ ایم 6 منصوبہ پانچ حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے جن میں سے تین حصوں کیلئے فنڈنگ حاصل کر لی گئی ہے جبکہ باقی پر کام جاری ہے۔ منصوبے پر ستمبرمیں کام شروع کردیا جائے گا ملاقات میں لیاری ایکسپریس وے کا معاملہ بھی زیر غور آیا۔این ایچ اے حکام کے مطابق تھرڈ پارٹی آڈٹ میں لیاری ایکسپریس وے کو بھاری ٹریفک کیلئے غیر موزوں قرار دیا گیا ہے۔ تاہم این ایچ اے نے تجویز دی کہ غیر مصروف اوقات میں بھاری ٹریفک کو لیاری ایکسپریس وے سے گزرنے کی اجازت دی جا سکتی ہے۔ این ایچ اے نے لیاری انٹرچینجز کو بہتر بنانے پر آمادگی ظاہر کی ہے۔وفاقی وزیر عبدالعلیم خان کی معروف تاجر رہنما عارف حبیب اور دیگر سے بھی ملاقات ہوئی،ان کا کہنا تھا کہ دوہزار ستائیس تک کراچی سے سکھر نئی موٹر وے بنادی جائے گی،ایم 6 پاکستان کی شہ رگ ہے، یہ تقریبا 400ارب روپے کا پراجیکٹ ہے اس میں پانچ سیکشن ہیں اور ہر سیکشن 60کلومیٹر پر مشتمل ہے اور سرمایہ کاری کے لئے اس سے بہتر کوئی منصوبہ نہیں ہو سکتا۔نفع بخش منصوبے میں کراچی کے تاجروں کو شامل ہونے کی دعوت دی گئی ہے جس پر بہت مثبت ردعمل سامنے آیا ہے۔
وفاقی وزیر کی کراچی میں وزیراعلیٰ سندھ اور تاجروں سے ملاقات کے بعد امید ہے کہ سندھ میں موٹرویز منصوبوں پر پیشرفت میں تیزی آئے گی۔ دوسری طرف حکومت سندھ کو کراچی میں بڑھتے ٹریفک کے دباؤکو کم کرنے کیلئے کراچی سرکلر ریلوے پر بھرپور توجہ دینی چاہئے جو عملا ایک مردہ منصوبہ بن چکا ہے اور کئی بار حکومتی دعووں اور وعدوں کے باجود بحال نہیں ہوسکا۔کے سی آر ایک اہم شہری ٹرانسپورٹ سروس تھی جو 1964 ء میں شروع ہوئی، ابتدائی طور پر اس کا مقصد پاکستان ریلوے کے ملازمین کو شہر کے مختلف حصوں میں سفر کی سہولت فراہم کرنا تھا، لیکن جلد ہی یہ عام شہریوں کے لیے بھی ایک مقبول سفری ذریعہ بن گئی تھی۔یہ سروس کراچی کے مختلف صنعتی، تجارتی، تعلیمی اور رہائشی علاقوں کو آپس میں جوڑتی تھی۔اپنے عروج کے دور میں، خاص طور پر 1970ء کی دہائی میں KCR روزانہ 104 ٹرینیں چلاتی تھی جس میں 80 ٹرینیں مین لائن پر اور24 ٹرینیں لوپ لائن پرچلائی جاتی تھیں۔ 1994ء میں مالی خسارے اور انتظامی نااہلی کی وجہ سے اس کی زیادہ تر ٹرینیں بند کر دی گئی تھیں، اور صرف چند ٹرینیں لوپ لائن پر چلتی رہیں۔ KCR نے 1999ء میں مکمل طور پر اپنی سروس بند کر دی۔ سروس بند ہونے کی وجہ خراب انتظامی حالات اور کرپشن تھے، ٹکٹوں کی جانچ نہ ہونے کی وجہ سے آمدنی میں کمی ہوئی، انفرااسٹرکچر کی دیکھ بھال نہیں کی گئی۔
گزشتہ چند برسوں میں کے سی آر کی بحالی کی باتیں کی جاتی رہی ہیں۔43کلومیٹر کے ٹریک پر 23اسٹیشنز بننے تھے۔سابقہ دور حکومت میں اسے سی پیک میں شامل کرلیا گیا،اس پردو سال قبل کچھ کام کیا گیا لیکن پھر ادھورا چھوڑ دیا گیا۔ عدالت کے حکم پر سابق وزیر ریلوے شیخ رشید نے کے سی آر کے نام۔ پر لوکل ٹرین سائٹ ایریا سے پپری تک چلائی تھی تاہم وہ بھی بد انتظامی کے سبب کچھ عرصے بعد ہی بند ہوگئی۔کراچی سرکلر ریلوے وہ منصوبہ تھا جس میں کہا گیا تھا اسے سی پیک میں شامل کرکے جدید برقی ٹرین چلائی جائیں گی جو بغیر ڈرائیور کے خودکار نظام پر کام کریں گی۔ چین کی ریلوے کنسٹرکشن کارپوریشن (CRCC) کے ساتھ معاہدے کے تحت، منصوبے کی لاگت 2.002 ارب امریکی ڈالر بتائی گئی تھی۔منصوبے میں 23.86 کلومیٹر کا حصہ بلند پلوں پر، 3.70 کلومیٹر سرنگوں میں اور باقی 15.56 کلومیٹر سطح زمین پر تعمیر کیا جانا تھا۔کراچی سٹی، کراچی کینٹ، ڈرگ روڈ، لیاقت آباد، اورنگی، سائٹ، بلدیہ، لیاری سمیت دیگر علاقوں میں تئیس اسٹیشنز بننے تھے۔۔پلان کے مطابق ٹرینیں روزانہ 17 گھنٹے چلنی تھی، اور ہر 6 منٹ بعد ایک ٹرین نے دستیاب ہونا تھا۔ منصوبے کے تحت 22 لیول کراسنگز کو ختم کر کے ان کی جگہ انڈرپاسز اور اوورپاسز تعمیر کیے جانے تھے۔ لیکن کراچی کے شہریوں کو دکھایا جانے والا یہ خواب سراب ہی رہا۔
اسلم خان اس وقت سما ٹی وی میں کراچی کے بیورو چیف کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے ہیں۔ گزشتہ تین دہائیوں کے دوران وہ مختلف اخبارات اور نیوز چینلز سے وابستہ رہ چکے ہیں۔






















