بانی پاکستان حضرت قائداعظم محمد علی جناحؒ قوم کو یہ واضح اور دوٹوک الفاظ میں بتاکرگئے کہ کشمیر پاکستان کہ شہہ رگ ہے۔ کشمیرپاکستان اور پاکستان کشمیر کے بغیرنامکمل ہے۔ اٹوٹ انگ اور شہہ رگ کے القابات سے مزین رگ جاں کشمیر یعنی کشمیر اورپاکستان یک جان دوقالب۔۔۔ سات دہائیوں سے زائد عرصہ گزرچکاکشمیر کی تین نسلیں پاکستان سے محبت اور وفاداری کا ثبوت دے کر تاریخ میں امرہوچکی ہیں اور یہ سلسلہ جاری و ساری ہے۔ کشمیری کیا چاہتے ہیں الحاق پاکستان اس کے علاوہ کچھ بھی نہیں اور کسی قیمت پر بھی نہیں۔ حق خود ارادیت کشمیریوں کا بنیادی حق ہے جس سے بھارت غاصبانہ قبضہ کرکے کشمیریوں کو ان کے بنیادی حق سے محروم کررہاہے۔۔
پانچ اگست دو ہزار انیس کو جب مودی نے یک طرفہ کارروائی کی اور کشمیر کو ہڑپ کیا جسے پاکستان نے تسلیم کیا اور نہ ہی کشمیریوں نے قبول کیا۔مودی کے اس شب خون سے وادی میں انسانی حقوق کی بدترین صورتحال ہے اور کشمیریوں پر زندگی تنگ کی جاچکی ہے اور مودی اوچھے ہتکھنڈوں کے ذریعے غیرکشمیریوں کو یہاں آباد کرکے ناپاک اور گھناونی سازشیں کررہاہے۔۔
بھارت کشمیر کا معاملہ اقوام متحدہ کے فورم پرلے گیا تھا اور وہاں اسے منہ کی کھانا پڑی،کشمیر بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ متنازع علاقہ ہے اور اقوام متحدہ کی قراردادیں موجود ہیں کہ کشمیریوں کو حق خودارادیت دیا جائے۔ تاریخ میں یہ واضح طور پر موجود ہےکہ اگست 1948 میں اقوام متحدہ کےکمیشن برائے انڈیا اور پاکستان نے کشمیر پر پہلی قرارداد منظور کی تھی جس میں کشمیر میں جنگ بندی، فوجی انخلا اورحق خود ارادیت شامل تھا۔
بھارتی حملے اور پاکستان کی بھرپور جوابی کارروائی کے بعد امریکی صدر ٹرمپ میدان میں آئے بھارتی درخواست پر سیزفائر کرائی بلکہ دونوں ممالک کو مسئلہ کشمیر پر ثالثی کی پیشکش بھی کی۔ امریکی صدر کی یہ آفر ہمارے لیے ٹرمپ کارڈ سے کم نہیں۔۔ صدر ٹرمپ کے اس بیان کو دنیا بھر میں ذرائع ابلاغ میں نمایاں کوریج ملی اور کشمیر کا تنازع ایک بارپھر فلیش پوائنٹ بن کر سامنے آیا۔ پاکستان کے لیے یہ بھی پیشکش ایک سنہری موقع ہے کیونکہ پاکستان ہمیشہ بھارت سے دوطرفہ مذاکرات کے ذریعے ہی مسئلہ حل کرنا چاہتاہے مگر بھارت پاکستان سے کشمیر سمیت ہر معاملے پر بات چیت سے راہ فرار اختیار کرتا رہاہے اور اس کی یہی پالیسی چل رہی ہے
پاکستان کہ یہ ریاستی پالیسی ہے کہ وہ ہمیشہ کشمیریوں کی اخلاقی سیاسی اور سفارتی حمایت جاری رکھے گا۔ پاکستان کو سفارتی سطح پر امریکا سے یہ معاملہ دوبارہ اٹھانا چاہیے اور امریکی صدر کی ثالثی کی پیشکش پر اپنا بیانہ اس کے سامنے رکھے۔ پاکستان امریکی صدر کو کشمیر میں بھارتی ریاستی دہشتگری اور ظلم وستم سے متعلق ڈوزئیر پیش کرے اور اسے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کو بھی دینا چاہیے
وزیراعظم نے حکومتی کمیٹی بھی بنائی ہے جو یورپ جائے گی اور بھارتی جنگی اقدامات جارحیت اور پاکستان میں ریاستی دہشتگردی کے معاملے پر پاکستان کی موثر آواز سامنے رکھے گی۔ اس کمیٹی میں چئیرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری، شیری رحمان، خرم دستگیر،مصدق ملک، فیصل سبزواری،حنا ربانی کھر،جلیل عباس جیلانی، تہمینہ جنجوعہ شامل ہیں
بالکل اسطرح کشمیر کے معاملے پر بھی پاکستان سمیت عالمی سطح پر اقدامات مزید تیز کیے جائیں، دفترخارجہ پاکستان میں سفیروں کو کشمیر کی صورتحال پر بریفنگ کا اہتمام کرے اسطرح پارلیمنٹ کو بھی متحرک کیا جائے کشمیر کمیٹی کے چئیرمین بھی پاکستان کی تمام سیاسی قیادت کو آن بورڈ کریں اس میں اپوزیشن کوبھی شامل کیا جائے کیونکہ پاکستان میں دیگر اشوز پر سیاسی اختلافات ہوسکتے ہیں مگر پاکستان کی سلامتی خودمختاری اور مسئلہ کشمیر پر سب سیاسی قیادت ایک پیج پر ہے۔ اپوزیشن کو بھی آن بورڈ کرنے سے اس کا دنیا بھر میں ایک اچھا تاثرجائے گااور حکومت کی سنجیدگی بھی ظاہرہوگی۔اس معاملے پر جارحانہ حکمت عملی اورموثرسفارتی کوششوں سے ہی بھارت پر دباو بڑھے گا اور وہ مزید بیک فٹ پر آئے گا۔۔ امریکی صدر کو اس کا بیان بھی فوری یاد کرایا جائے اس سلسلے میں وزیراعظم شہبازشریف بھی ہنگامی طورپر اقدامات کریں۔ امریکی صدر بھی مسئلہ کشمیر پرثالثی کے بیان کو صرف کاغذی کارروائی تک محدود نہ رکھیں بلکہ مودی پر بھی دباو بڑھائیں امریکی صدر جس طرح جنگ بندی کا کریڈٹ لے رہے ہیں اور باربار یہ بتارہے ہیں کہ انہوں نے ایٹمی جنگ سے بچالیا تو یاد رکھیں کہ یہ عارضی ہے اگر کشمیر کا مسئلہ حل نہ ہوا تو یہ تلوار ہمیشہ ہمیشہ کے لیے لٹکتی رہے گی
حسنین خواجہ شعبہ صحافت سے گزشتہ 25 سال سے وابستہ ہیں جو مختلف ٹی وی چینلز اور اخبارات میں کام کرچکے ہیں اور ان دنوں سما ٹی وی میں بطور کنٹرولر نیوز اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔






















