ایک عجیب و غریب منظرنامہ ہے، ایک ایسا منظر جسے دیکھ کر دل کی دھڑکنیں تیز ہو جاتی ہیں اور قلم لرز اٹھتا ہے۔ ایک طرف فاقہ زدہ آنکھیں ہیں جو روٹی کے ایک نوالے کی متلاشی ہیں، بدنصیب چہرے ہیں جو دوا کی ایک گولی، پانی کے ایک قطرے اور چھت کی ایک چادر کو ترس رہے ہیں۔ اور دوسری جانب وہ سرزمین ہے جہاں دفاعی بجٹ کی گھنٹیاں ہر سال ریکارڈ توڑتی ہیں، اربوں ڈالر کے جنگی طیارے فضاؤں میں قہر بن کر گرجتے ہیں، توپ خانے دھرتی کو لرزاتے ہیں اور میزائل اپنے اہداف کی تاک میں چھپے بیٹھے ہیں۔ یہ کوئی افریقی قبیلے کی داستان نہیں بلکہ یہ بھارت کا جدید چہرہ ہے جس پر "شائننگ انڈیا" کی ملمع کاری چمک رہی ہے۔
مگر اس چمک کے پیچھے کتنے اندھیرے ہیں، یہ شاید عالمی میڈیا کی چکاچوند میں کہیں کھو گیا ہے۔ وہ ملک جو ہر سال اپنے بجٹ کا بڑا حصہ ہتھیاروں پر صرف کرتا ہے، وہ اپنے شہریوں کو پینے کا صاف پانی تک مہیا نہیں کر پاتا۔ لاکھوں بچے اسکولوں سے باہر، کروڑوں انسان بیماریوں کے شکنجے میں گرفتار اور لاکھوں نوجوان روزگار کی راہوں سے محروم ہیں تو پھر سوال یہ ہے کہ دشمن کون ہے؟ وہ غریب کسان؟ وہ بیمار مزدور؟ یا وہ معصوم بچہ جو دو وقت کی روٹی کے لیے اسکول چھوڑ دیتا ہے؟
بھارت کی حکومت مسلسل ایک راگ الاپ رہی ہے کہ دشمن دروازے پر کھڑا ہے اور قوم کو چوکنا رہنا ہوگا۔ لیکن جب کوئی ریاست اپنی عوام کو عزتِ نفس، انصاف، تعلیم اور صحت جیسی بنیادی نعمتیں نہ دے سکے تو وہ کس دشمن سے جنگ کی تیاری کر رہی ہے؟ کیا اپنی ہی کمزوریوں کا پردہ ڈالنے کے لیے ایک خیالی دشمن کی تصویر تراش لی گئی ہے؟
تاریخ کے اوراق گواہ ہیں کہ فالس فلیگ آپریشنز کا ڈرامہ صرف سیاستدانوں کے مقاصد کے لیے رچایا جاتا ہے۔ ہمدردیاں سمیٹنے کا یہ کھیل اب پرانا ہوچکا ہے، مگر بھارت کے حکمران اسے نئی اداکاری کے ساتھ پیش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ خون کے آنسو بہا کر دنیا کو دھوکا دینے کی یہ ترکیب اب بے اثر اور متروک ہوچکی ہے کیونکہ دنیا کے ہوش مند طبقے جان چکے ہیں کہ جھوٹ کا تانا بانا جلد یا بدیر بکھر جاتا ہے۔
دفاعی اخراجات کی اس دوڑ نے بھارت کو کہاں لا کھڑا کیا ہے؟ ہر سال اربوں کی مالیت کے جنگی طیارے اور میزائل خریدے جاتے ہیں، مگر ایک اسکول کی چھت گرنے سے درجنوں بچے مر جاتے ہیں۔ ایک جنگی طیارے کی قیمت میں کتنے گاؤں میں بجلی آسکتی ہے؟ کتنے دیہی علاقوں میں ہسپتال قائم ہو سکتے ہیں؟ مگر نہیں، بھارت کی ترجیحات کا پلڑا عوام کی طرف جھکنے کو تیار نہیں۔
یہ دردناک کہانی صرف بھارت کی نہیں، جب کوئی ملک ہتھیاروں کی دوڑ میں شامل ہوتا ہے، تو وہ اپنے ساتھ پورے خطے کو ایک ایسے بھنور میں کھینچ لیتا ہے جہاں نہ محبت باقی رہتی ہے، نہ امن اور نہ اعتماد۔ چھوٹی چھوٹی جھڑپیں بڑے تصادم کا روپ دھار لیتی ہیں، اور پھر وہی ہوتا ہے جو تاریخ کے صفحات میں بار بار رقم ہو چکا ہے، یعنی تباہی، بربادی، چیخ و پکار اور ایک ابدی خاموشی کا راج۔
جموں و کشمیر کی سرزمین بھارت کے جنگی جنون کی گواہ ہے، جہاں آئے روز گولہ باری ہوتی ہے، معصوم بستیاں اجڑتی ہیں اور دریا خون سے لال ہو جاتے ہیں۔ بھارت کی جارحانہ حکمتِ عملی نے پورے جنوبی ایشیا کے امن کو یرغمال بنا رکھا ہے۔ پاکستان، نیپال، بنگلہ دیش اور حتیٰ کہ چین تک اس جارحیت کی تپش محسوس کرتے ہیں۔ امن کا پرچم اٹھانے والے اب مجبوراً دفاعی تیاریوں میں مصروف ہیں کیونکہ کوئی بھی ملک اپنے شہریوں کو غیرمحفوظ نہیں چھوڑ سکتا۔
خطے کے لوگوں پر معاشی دباؤ بڑھ رہا ہے۔ دفاعی بجٹوں کی دوڑ نے تعلیم، صحت، بنیادی ڈھانچے اور غربت کے خلاف لڑائی کو پس پشت ڈال دیا ہے۔ لاکھوں لوگ بے روزگار ہو رہے ہیں، بیماریاں بے لگام ہوچکی ہیں اور غربت ایک عفریت کی صورت پورے خطے کو نگل رہی ہے۔ مگر افسوس کہ اس سب کے باوجود بھارت کے حکمران خوابوں کے محل تعمیر کر رہے ہیں، سپر پاور بننے کے خواب۔
حقیقت یہ ہے کہ سپر پاور وہ ہوتا ہے جو اپنے عوام کو محفوظ، خوشحال اور تعلیم یافتہ بنائے، طاقت وہ ہے جو کسی کو نوالہ چھیننے سے پہلے دو وقت کی روٹی عطا کرے۔ فوجی طاقت اگر عوامی طاقت سے جدا ہوجائے تو محض ایک بے روح مشین بن جاتی ہے جو صرف تباہی لاتی ہے۔
بھارت کو یہ سمجھنے کی اشد ضرورت ہے کہ ترقی صرف ہتھیاروں کے انبار لگانے سے حاصل نہیں ہوتی۔ ترقی وہ ہوتی ہے جس میں ایک ماں کو علاج کے لیے دہلی کے دروازے نہ کھٹکھٹانے پڑیں، ایک استاد کو تنخواہ کے لیے برسوں انتظار نہ کرنا پڑے اور ایک نوجوان کو مستقبل کے خواب کسی بحری بیڑے پر سوار ہو کر ڈھونڈنے نہ پڑیں۔
خطے میں امن کا خواب صرف اسی وقت حقیقت کا روپ دھار سکتا ہے جب باہمی تعاون، ثقافتی تبادلے، تجارت اور مکالمے کی راہیں کھولی جائیں۔ جب ہم ایک دوسرے کو دشمن سمجھنے کے بجائے ساتھی تصور کریں۔ مگر افسوس کہ بھارت کی بالادستی کی خواہش نے ان تمام امکانات کو کچل کر رکھ دیا ہے۔ مغرب کے اشاروں پر چلنے والا بھارت ایک ایسے کٹھ پتلی کی صورت اختیار کر چکا ہے جو اپنی ڈوروں پر نہیں بلکہ دوسروں کی انگلیوں پر ناچ رہا ہے۔
سب سے بڑا سوال یہی ہے کہ اس تمام جنون کا خمیازہ کون بھگتے گا؟ جواب سادہ ہے کہ عام آدمی۔ وہ کسان جو سورج ڈھلنے تک کھیتوں میں پسینہ بہاتا ہے، وہ خاتون جو دہکتے چولہے پر خالی دیگچی سے آنکھیں چراتی ہے اور وہ بچہ جو یونیفارم کے بغیر اسکول کے دروازے سے لوٹ آتا ہے۔ یہی وہ لوگ ہیں جو جنگی جنون کی قیمت چکائیں گے۔ ان کے خواب مسل دیے جائیں گے، ان کی مسکراہٹیں چھن جائیں گی۔
جنگ کبھی ترقی کا راستہ نہیں ہوتی، یہ صرف بربادی کی شاہراہ ہے۔ ہتھیاروں سے مزین راستے پر اگر کوئی قافلہ نکلے گا تو اس کی واپسی صرف ملبے، آنسوؤں اور ویرانیوں سے ممکن ہوگی۔ وہ سرمایہ دار جن کے لیے جنگیں سونا اُگلتی ہیں اور وہ سیاستدان جو جنگ کے نعروں پر اقتدار کی سیڑھیاں چڑھتے ہیں، ان سب کی کامیابی کا جشن عام انسان کی بربادی پر کھڑا ہوتا ہے۔
اور جب عوامی صبر کا پیمانہ لبریز ہو جائے، تو اسے نہ کوئی توپ روک سکتی ہے نہ کوئی میزائل۔ عوام کا غصہ وہ سیلاب ہے جو ہر دیوار، ہر قلعہ اور ہر زنجیر کو بہا لے جاتا ہے۔
وقت آگیا ہے کہ بھارت اپنے خوابوں کے آئینے میں اپنی حقیقت کی جھلک دیکھے۔ اگر وہ واقعی ایک عظیم قوم بننا چاہتا ہے تو اسے اپنے عوام کی طرف دیکھنا ہوگا، ان کی ضرورتوں کو سمجھنا ہوگا اور خطے کے ممالک سے دشمنی کے بجائے دوستی کا ہاتھ بڑھانا ہوگا۔
ورنہ یاد رکھیں، جنگوں میں کوئی فاتح نہیں ہوتا، صرف ہارنے والے رہ جاتے ہیں۔ وہ ہار جس کا بوجھ نسلیں اٹھاتی ہیں، وہ زخم جو مورچوں میں نہیں بلکہ دلوں میں لگتے ہیں اور وہ خاموشی جو فتح کے نعرے سے نہیں، شکست کے ماتم سے گونجتی ہے۔ پاکستان اور بھارت دونوں جوہری صلاحیت کے حامل ملک ہیں، اگر جنگ ہوئی تو اس خطے میں جشن تو کوئی بھی نہیں منا سکے گا، البتہ ممکن ہے کہ کچھ لوگ فتح کا ماتم منانے کیلئے بچ جائیں۔