بسا اوقات یوں محسوس ہوتا ہے جیسے مہنگائی محض ایک اقتصادی مسئلہ نہیں، بلکہ ایک وجودی بحران ہے، ایسا ناسور جو قوم کی روح کو گھن کی طرح چاٹ رہا ہے، جو ہر آنگن کی دیواروں پر حسرت کی مہریں ثبت کر رہا ہے۔ بازار کے ہر کونے میں، چوراہوں پر، رکشوں کے پچھلے شیشے پر، مزدور کے پسینے میں، بچے کے سکول بیگ میں اور ماں کے خالی برتنوں میں الغرض ہر جگہ مہنگائی کی بو محسوس ہوتی ہے۔ یہ وہ خاموش آتش فشاں ہے جس کی چنگاریاں اب صبر کا دامن جلا رہی ہیں۔
چند روز پیشتر وفاقی وزیرِ خزانہ محمد اورنگزیب نے لاہور کے ایوانِ صنعت و تجارت میں جو کچھ کہا، وہ برسوں کے جرائم کا صرف اعتراف نہیں بلکہ عہدِ حاضر کی معاشی بدنظمی کا نوحہ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ مہنگائی کا اصل سبب مڈل مین ہے، جو اشیاء کی ترسیل کے نظام میں ایسی دراڑ بن چکا ہے جس سے ہر طرف کرپشن، ذخیرہ اندوزی اور مصنوعی قلت کا زہر رس رہا ہے۔
یہ "مڈل مین" دراصل کوئی فرضی کردار نہیں۔ یہ وہی چہرے ہیں جو آج چینی، آٹا، دال، چاول، پیاز اور ٹماٹر کی قیمتوں کا تعین کرتے ہیں۔ یہ وہی ہاتھ ہیں جو گوداموں میں ذخیرہ کرتے ہیں، اور رات کے اندھیروں میں مال باہر نکال کر دن کی روشنی میں تین گنا داموں فروخت کرتے ہیں۔ اورنگزیب صاحب! یہ لوگ بیچ میں نہیں، ہر طرف ہیں۔ یہ مافیا ہر شعبے میں پنجے گاڑ چکا ہے۔ یہ تاجروں کا روپ دھار کر حکومت کے ساتھ بیٹھتے ہیں، پالیسی بنواتے ہیں، سبسڈی لیتے ہیں اور پھر مارکیٹ کو یرغمال بنا لیتے ہیں۔
یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ پاکستان میں اشیاء کی قیمت پیداوار پر نہیں، ذخیرہ پر طے ہوتی ہیں۔ جو جتنا روک سکتا ہے، وہ اتنا لوٹ سکتا ہے۔ چینی کی قیمت میں اضافے پر بننے والی کمیٹیوں کے دفتر، سفارشات اور رپورٹس سب ردی کی ٹوکری کی زینت بنتے ہیں۔ کوئی سزا نہیں، کوئی مثال نہیں، کوئی نشانِ عبرت نہیں۔ بلکہ اکثر دیکھا گیا ہے کہ یہی ذخیرہ اندوز، اگلے سال کے بجٹ مشاورتی اجلاسوں میں بیٹھے ہوتے ہیں۔
وزیر خزانہ کے الفاظ میں درد تھا، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا اس درد کا کوئی علاج بھی ہے؟ کیا یہ صرف ایک "ٹیکنیکل" مسئلہ ہے، جس کا حل ڈیجیٹلائزیشن، ٹریکنگ سسٹم اور جدید نظام میں پوشیدہ ہے؟ یا پھر یہ دراصل ایک "سیاسی" مرض ہے جس کی جڑیں اُس اشرافیہ میں پیوست ہیں جو خود اس نظام کی پیداواری قوت ہے؟ ڈیجیٹل نظام محض ایک آلہ ہے، لیکن اگر اُسے بھی یہی مافیا کنٹرول کرے تو پھر عوام کس کو دہائی دیں گے؟
اور پھر بات آئی ٹیکس نظام کی، وہی ٹیکس سسٹم جو ایک غریب استاد سے تنخواہ کے ساتھ ہی کاٹ لیا جاتا ہے، لیکن کروڑوں کے مالک تاجر اور صنعتکار ایک پیسہ بھی دیانتداری سے نہیں دیتے۔ ٹیکس چوری کو اس ملک میں "چالاکی" سمجھا جاتا ہے۔ ایف بی آر کی فائلیں، آڈٹ کے نوٹس اور گوشواروں کی پیچیدگیاں، یہ سب اس "دیانت دار" کو سزا دیتے ہیں جو نظام پر یقین کرتا ہے۔ جبکہ جو نظام سے بھاگتا ہے، وہی خوشحال ہے، طاقتور ہے اور محفوظ ہے۔
وزیر خزانہ نے ایک اور تلخ حقیقت بیان کی کہ ہر سال پاکستان میں ایک کھرب روپے کرپشن کی نذر ہو جاتے ہیں۔ ایک کھرب روپے! یہ صرف ایک عدد نہیں، بلکہ اس کے پیچھے وہ خواب دفن ہیں جو غریب والدین نے اپنے بچوں کی تعلیم کے لیے دیکھے، وہ سانسیں ہیں جو کسی ماں نے اپنے مریض بچے کی دوا کے لیے روکی تھیں اور وہ آہیں ہیں جو ایک نوجوان نے روزگار نہ ملنے پر بھری تھیں۔
حکومت اب کہتی ہے کہ نظام کو ڈیجیٹل کریں گے، شفاف بنائیں گے اور ٹیکس نیٹ بڑھائیں گے۔ لیکن کیا ریاست کے وہ ستون جو دہائیوں سے اس بدعنوانی کی بنیاد بنے ہوئے ہیں، وہ خود کو بدلنے کیلئے تیار ہیں؟ کیا وہ بیوروکریسی جو پرانی فائلوں کے نیچے مفادات کی چادر تانے بیٹھی ہے، کیا وہ خود کو تبدیل کرے گی؟ سچ تو یہ ہے کہ اس ملک کا اصل مسئلہ صرف معیشت نہیں، بلکہ نیت ہے۔ جب تک نیت میں کھوٹ ہے، نعرے جتنے بھی خوبصورت ہوں، نتائج ویسے ہی دھندلے رہیں گے۔
عوام اب مزید تاخیر کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ مہنگائی کی چکی میں پسنے والا شخص، کسی سروے کا حصہ نہیں بنتا۔ وہ میڈیا پر چیختا نہیں، وہ صرف خاموشی سے جھیلتا ہے۔ مگر جب یہ خاموشی چیخ میں بدلے گی، تو وہ صرف نظام نہیں، امیدیں بھی روند ڈالے گی۔ وزیر خزانہ نے درست سمت کی طرف اشارہ کیا ہے، مگر اب عمل کا وقت ہے۔ ایک نیا سماجی معاہدہ درکار ہے۔ ایسا معاہدہ جو طاقتور کو قانون کے تابع کرے اور کمزور کو سہارا دے۔
ہمیں یہ ماننا ہوگا کہ مہنگائی صرف قیمتوں کا مسئلہ نہیں بلکہ یہ اعتماد کا بحران ہے، یہ عدل کی شکست ہے اور یہ نظام کی ناکامی بھی ہے۔ جب تک اشیاء کی قیمتوں میں وہ شفافیت نہیں آتی جو سورج کی کرنوں میں ہوتی ہے، جب تک ٹیکس دینے والا فخر محسوس نہیں کرتا اور چور کو سزا نہیں ملتی، تب تک یہ جن بوتل میں بند نہیں ہوگا۔
اور آخر میں، ایک سوال کہ اگر آج کا وزیر خزانہ، جو بین الاقوامی مالیاتی اداروں کا تجربہ رکھتا ہے اور ایک کارپوریٹ پس منظر سے آتا ہے، اگر وہ بھی خود کو اس نظام میں بندھا ہوا محسوس کر رہا ہے تو پھر غریب کا استحصال کرنے والے اس نظام کو کون توڑے گا؟ اور کب توڑے گا؟
یہ جن اب اتنا بڑا ہوچکا ہے کہ صرف حکومتی پالیسی سے نہیں، بلکہ اجتماعی شعور سے قابو میں آئے گا۔ عوام کو جاگنا ہوگا، صرف ووٹ دینے کے دن نہیں بلکہ ہر دن جاگنا ہوگا کیونکہ یہ جن صرف حکومت کا نہیں، ہمارا بھی پیدا کردہ ہے۔