سربراہ جمعیت علماء اسلام ( جے یو آئی ) مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ افغانستان کے ساتھ جنگ کا خطرہ ہے یا نہیں اس پر مزید سوچنے کی ضرورت ہے۔
سماء کے پروگرام "میرے سوال" میں گفتگو کرتے ہوئے سربراہ جمعیت علماء اسلام ( جے یو آئی ) مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ دہشتگردی کے حوالے سے ایک تاریخ ہے اور ریاستی غلطیوں کا بہت عمل دخل ہے، افغان جنگ کی وجہ سے پاکستان نے 30 سے 40 لاکھ لوگوں کو پناہ دی اور افغان جنگ میں ہم نے پاکستان کو اس کا بیس کیمپ بنایا، 14 سال تک افغانستان میں جنگ رہی، روس کے خلاف جہاد امریکا آیا تو جہاد نہیں ، ریاست اس پر لوگوں کو مطمئن نہ کرسکی، جہاد قرآن پاک کا حکم ہے،اس کے لیے حکمت عملی چاہیے ہے۔
سربراہ جے یو آئی کا کہنا تھا کہ اسلامی دنیا کی جغرافیائی تقسیم کو دنیا نے تسلیم کیا ہوا ہے، اس وقت ہم جہاد کے حامی تھے ، تضاد سابق صدر پرویز مشرف کی امریکا کو سپورٹ کی وجہ سے آیا، افغان جنگ میں پاکستان کی پوزیشن بین الااقوامی گروپنگ کی تھی، اس سپورٹ کے ہم پر منفی اثرات پڑے ہیں اس پر بات ہونی چاہیے۔
مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ کسی بھی مکتبہ فکر کو مورد الزام نہ ٹھہرایا جائے، جنہوں نے اسلحہ اٹھا لیا ہے وہ اپنے طور پر ذمہ دار ہیں ، مسلک ذمہ دار نہیں ہے، پاکستان میں کوئی مسلکی تنازعات اور تصادم نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ دہشتگردی کے حوالے سے میرا موقف 10 سے 15 سال پرانا ہے، میں اپنے استاد کو بھی شہید کہوں اسکو قتل کرنے والے کو مجاہد کہوں یہ نہیں ہوسکتا، افغان علماء نے فتویٰ جاری کیا جہاد انجام کو پہنچ چکا اور انہوں نے کہا اگر کوئی اب لڑے گا وہ جہاد نہیں جنگ ہوگی۔
انہوں نے کہا کہ نئی چیزیں جوآئی ہیں ان سے ہم نے لاتعلقی کیا ہے، لاہور میں اے پی سی میں کہا گیا ہم اس نظام کے لیے جدوجہد جاری رکھیں گے، ہم اپنے ملک کے لیے سوچنا اور بات کرنا چاہتے ہیں، اگر ہمارا کسی گروپ سے اتفاق ہوتا تو کیا میں پارلیمںٹ میں ہوتا، میں افغانستان اپنی پارٹی کی کیپسٹی میں جانے پر آمادہ ہوا، میں نے وزارت خارجہ اور حکام سے مشاورت کی اور ایجنڈا تیار کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ میں نے افغانستان میں ایک ہفتہ گزارا ، تمام مسائل پر بات کی اسکے نتائج بھی آئے، ہم امریکی اتحادی تھے ، ہم نے ان کو اڈے دیئے ہوئے تھے، امریکا کے خلاف لڑنے والے پاکستان بھی آئے ہوئے تھے ہم نے ان کو بھی کور کیا، انہوں نے کہا ہمارا اور آپ کا مقصد ایک ہے اور کہا آپ عجلت کر رہے ہیں ہمیں وقت چاہیے، اس کے بعد ہم نے افغانستان کے ساتھ معاملہ کیوں بگاڑ دیا سمجھ نہیں آرہی۔
مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ افغانستان کے ساتھ جنگ کا خطرہ ہے یا نہیں اس پر مزید سوچنے کی ضرورت ہے، جنگ نہ افغانستان کے لیے مفید ہے نہ پاکستان کیلئے مفید ہے، افغانستان اور امن وامان کے حوالے سے جامع حکمت عملی کی ضرورت ہے، حکمران ان تمام معاملات پر سوچیں اور تمام جماعتوں کو بلا لیں۔
سربراہ جے یو آئی کا کہنا تھا کہ ان کیمرا اجلاس میں وہ گفتگو اور مباحثہ امانت ہوتی ہے، اسمبلی میں نمبر گیم نہیں کی ، دل کی آواز دیانت سے پہنچانے کی کوشش کی، اس بات کا شدت سے احساس ہوا وہ ٹکرز مسلسل چلتے رہے، کہاں سے خبر لیک ہوتی رہی اور کون کرتا رہا ، ہمارے پاس تو یہ صلاحیت نہ تھی، جب پبلک میں غلط ترجمانی کی گئی تو ہم مجبور ہوئے اپنی وضاحت کریں۔
ان کا کہنا تھا کہ ایک فریق کہتا ہے معاملات خفیہ ہونے چاہیے تو دوسرے پر راز رکھنا واجب ہوتا ہے، ہم امن وامان چاہتے ہیں ، جنگ کا مشورہ نہیں دیں گے، یہ سوال جن سے پوچھنا چاہیے ان تک رسائی نہیں ، ابھی بھی ہم ان کی پوری حکمت عملی سے آگاہ نہیں ، حکومت کی ذمہ داری ہے وہ ہمیں امن دے ، نہ طاقت کے استعمال کا نتیجہ آ رہا ہے نہ بات چیت کا ، خلا تو ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایک رائے ہوتی ہے باڑ لگا دیں کسی کا باپ نہیں اکھاڑ سکتا ، دوسری رائے میں اکھاڑ کر پھینکا جاتا ہے، اس خلا کا کوئی تو فائدہ اٹھا رہا ہے، ہم اور صوبے اپناحق مانگ رہے ہیں، ایم ایم اے فوج کے ساتھ نہ تھی ، اس نے خلا پر کیا تھا، جنگ چھڑی تو ہم نے سب سے بڑے مظاہرے کئے تھے، ہم نے کہا تھا امریکا کو اڈے کیوں دیے ، پی پی اور ن لیگ اندورنی مخالف تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ کسی کا بھی رول ختم نہیں کرنا چاہیے ، کچھ لوگ سینئر ہوتے ہیں، سیاسی اختلاف ہے مگر نواز شریف کے لیے احترام آج بھی ہے، نوازشریف کا کردار نظر نہیں آرہا بالکل ہی سین سے غائب ہوگئے ہیں۔
سربراہ جے یو آئی نے کہا کہ جمہوریت شکست کھائے گی تو پھر انتہاپسندی کامیاب ہوگی، ہم نے پہلے بھی اکیلے تحریک چلائی تھی۔
مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ جے یوآئی اور پی ٹی آئی میں تلخ ماحول اعتدال کی طرف جا رہا ہے، یہ اچھا رویہ ہے اسے قائم ہونا چاہیے ، ہمیشہ قائم رہنے کی امید رکھ رہا ہوں، محدود وقت اور فائدہ کے لیے دوستی رکھوں یہ نہیں رہے گا، بانی پی ٹی آئی کا رول سیاست میں کیا ہے انہوں نے خود طے کرنا ہے، سیاست میں بیٹھ کر بات کرنے اور سمجھنے کی گنجائش رکھنی چاہیے۔
انہوں نے مزید کہا کہ جے یو آئی نے اپنی جنرل کونسل کا اجلاس اپریل میں بلا لیا ہے، اس اجلاس میں ہم صورتحال رکھ کر مستقبل کی پالیسی کی مںظوری لیں گے، جنکو اقتدار دیا جاتا ہے ان کو بھی اور جن کو باہر رکھا جاتا ہے مینج کیا جاتا ہے، کے پی میں بھی عوامی مینڈیٹ نہیں ہے، پی ٹی آئی اور ہمارا موقف الیکشن پر ہے کہ ان میں دھاندلی ہوئی ہے۔