یہ عورت خاوند کے ساتھ کیوں رہتی ہے، علحیدگی کیوں نہیں لیتی ہے۔ یہ وہ جملے ہیں جو ہمارے معاشرے میں اکثر لوگ ایسی خواتین کے بارے میں بولتے ہیں جنہیں ذہنی، جسمانی، معاشرتی اور معاشی تشدد کا سامنا ہو۔ یہ ہمارے معاشرے میں تشدد کا شکار خواتین کو ہر جانب سے سننے کو ملتے ہیں کہ یہ عورت تشدد برداشت کرکے خاوند کے ساتھ کیوں رہتی ہے؟ یا پھر کہا جاتا ہے کہ یہ عورت پاگلوں جیسی حرکتیں کرتی ہے، ہر وقت غصہ ناک پر رہتا ہے، بداخلاق ہے، بچوں کو مارتی ہے، بولنے کی تمیز بھی نہیں ہے، پاگل خانے میں ہونا چاہئے، کسی سے مسکرا کر بات نہیں کرتی، اپنی ہی دنیا میں گم رہتی ہے۔
ایسے بہت سے جملے ہیں جو روزمزہ زندگی میں ہر دوسری اور تیسری عورت کے بارے میں ادا کئے جاتے ہیں، ناصرف حضرات بلکہ اردگرد کی دیگر خواتین بھی گھریلو تشدد کی شکار خواتین کے رویے اور مزاج کے حوالے سے منفی جملے ادا کرتی رہتی ہیں۔
ہر دوسرے گھر میں خواتین کے نفسیاتی مسائل پیدائشی نہیں ہیں بلکہ گھریلو تشدد کے بڑھتے ہوئے کیسز اس کی بنیادی وجہ ہیں۔ خاوند، بھائی، بہنوئی، باپ، بیٹے یا دیگر رشتوں کی جانب سے جنسی، معاشی، سماجی، جسمانی اور زبانی تشدد کا شکار خواتین مخلتف نفسیاتی مسائل کا شکار ہوجاتی ہیں، جس کے بارے میں خواتین کو خود بھی شعور نہیں ہوتا اور وہ دن بہ دن ذہنی تناؤ کا شکار ہوکر منفی رویہ بھی اختیار کرجاتی ہیں۔
اکثر کہا جاتا ہے کہ عورتیں تشدد برداشت کرکے بھی شوہر سے علحیدگی کو ترجیح کیوں نہیں دیتیں، معاشرہ خود ہی سوال کرکے جواب بھی دیتا ہے کہ عورت بچوں کی وجہ سے مجبور ہے، ماں، باپ نہیں ہیں یا بھائی پوچھتا نہیں، معاشی طور پر مضبوط نہیں ہے، کدھر جائے گی، جیسی باتیں کانوں کو سننے کو ملتی ہیں۔ یہ باتیں کافی حد تک درست بھی ہیں مگر میڈیکل کی زبان میں گھریلو تشدد برداشت کرکے بھی تشدد کرنیوالے سے خود کو محفوظ کرنے کے بارے میں نہ سوچنے والی پاکستان سمیت دنیا بھر میں ہزاروں خواتین مختلف قسم کی ذہنی بیماریوں کا شکار ہوتی ہیں۔ خاص کر ’’بیٹرڈ وومن سنڈروم‘‘ کا شکار رہتی ہیں، جسے پوسٹ ٹرامیٹک اسٹریس ڈس آرڈر کی ایک قسم سمجھا جاتا ہے۔
ماہر نفسیات لینور واکر ای ڈی ڈی نے یہ اصطلاح اپنی 1979ء کی کتاب دی بیٹرڈ ویمن میں بنائی۔ واکر کا کہنا ہے کہ بیٹرڈ ویمنز سنڈروم ساتھی کے تشدد کے ساتھ رہنے کے نفسیاتی اثرات ہیں۔ عورت یہ خیال کرتی ہے کہ بیٹرڈ ویمنز سنڈروم کوئی ذہنی بیماری نہیں ہے، خواتین میں ذہنی بیماریوں کے بارے میں شعور کی کمی کی وجہ سے خواتین کی بڑی تعداد گھریلو تشدد کے ساتھ دن رات صدمے میں جیتی ہیں۔ تشدد کرنے والا ساتھی جسمانی، جنسی اور نفسیاتی بدسلوکی کرنے کے بعد معافی مانگتا ہے اور مستقبل میں بہتر انداز میں رہنے کا وعدہ کرتا ہے اور پھر یہ سائیکل عورت کی زندگی کا حصہ بناتا رہتا ہے۔
بیٹرڈ ویمن سنڈروم میں زبردستی کنٹرول بھی شامل ہوتا ہے، جس میں عورت پر تشدد کیا جارہا ہوتا ہے، اس کے نقل حرکت پر نظر رکھتا ہے کہ وہ ہر وقت کہاں ہے، اسے دوستوں اور خاندان والوں سے الگ کردینا، مالی کنٹرول کرنا تاکہ اس کے پاس چھوڑنے کیلئے پیسے نہ ہوں، پاکستان میں ایسی صورتحال عام ہے بلکہ میڈیا میں رپورٹ ہونے والے کئی کیسز میں عورت کو جان بھی گنوانی پڑتی ہے یا طلاق کی دھمکی اور بچوں سے دور رکھنے کی بلیک میلنگ کی جاتی ہے تاکہ عورت ہر حال میں تشدد زدہ رشتہ میں زندگی بسر کرتی رہے۔
اسلام آباد سے تعلق رکھنے والی ماہر نفسیات ڈاکٹر صائمہ جو گزشتہ کئی سالوں سے ذہنی امراض کے حوالے سے کونسلنگ فراہم کرتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں گھریلو تشدد جسمانی طور پر سمجھا جاتا ہے مگر ذہنی تشدد کے بارے میں بھی خواتین زیادہ شعور نہیں رکھتیں، گھریلو تشدد خواتین کے دماغ پر منفی اثرات مرتب کرتا ہے جس کی وجہ سے خواتین جسمانی یا جذباتی زیادتیوں کو برداشت کرتی ہیں، وہ کئی ذہنی بیماریوں کا شکار ہوتی ہیں، ان میں پوسٹ ٹرامیٹک اسٹریس ڈس آرڈر، ڈپریشن، اضطراب اور خودکشی کے خیالات شامل ہیں۔
انہوں نے کہا کہ میرے پاس مختلف نوعیت کے کیس آتے ہیں، جس میں ہر خاتون کو کیس کے مطابق کونسلنگ فراہم کی جاتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ مشاہدہ کے مطابق مڈل کلاس طبقے میں بہت کم کیس ہوتے ہیں ان کی نسبت اپر کلاس اور لور کلاس میں سنگین قسم کے کیس سامنے آتے ہیں، ایسا ہی ایک کیس اسلام آباد میں 27 سالہ نور مقدم کے تشدد اور قتل کا تھا، جس نے پاکستان سمیت دنیا بھر کو ہلا کر رکھ دیا تھا، یہ سلسلہ احتجاج اور وقتی اقدامات سے حل نہیں ہوگا بلکہ ذہنی تشدد کے حوالے سے سرکاری اور غیر سرکاری سطح پر عملی اقدامات کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں خواتین زبانی اور جسمانی طور پر بدسلوکی کا شکار ہونے کے باوجود بھی تعلقات نبھاتی ہیں، اب یہ جاننے کی اشد ضرورت ہے کہ کسی بھی قسم کا گھریلو تشدد جذباتی صحت کیلئے مناسب نہیں ہے، خواتین کو معلوم ہونا چاہئے کہ بدسلوکی والے تعلقات کے حوالے سے مدد لینے میں دیر نہیں کرنی چاہئے۔
قومی کمیشن برائے حقوق نسواں کے ساتھ جینڈر کنسلٹنٹ کے فرائص سر انجام دینے والی شبانہ عارف کا کہنا ہے کہ پاکستان میں گھریلو تشدد کی وجہ سے ذہنی تشدد کا شکار ہونیوالی خواتین کے حوالے سے 2 سے 3 ادارے کام کررہے ہیں مگر کوئی خاص ڈیٹا موجود نہیں، ملک میں گھریلو تشدد کیخلاف پارلیمنٹ سے لے کر سرکاری اور غیر سرکاری طور پر بھرپور آواز اٹھائی جارہی ہے۔
نجی ٹی وی سے وابستہ سینئر براڈکاسٹ جرنلسٹ فوزیہ کلثوم رانا کا کہنا ہے کہ گزشتہ کئی سالوں سے خواتین کے حوالے سے تشدد اور مسائل کے کیس رپورٹ کرتی رہی ہوں۔ میڈیا کا کام واقعات کو منظر عام پر لانا ہوتا ہے مگر افسوس کہ میڈیا کے ہاتھ کوئی کیس لگ جائے تو تمام تر اخلاقیات بھول کر رپورٹ کیا جاتا ہے، خاص کر خواتین کے تشدد یا دیگر کیسز، جس کی وجہ سے زیادتی کا شکار ہونے والی خواتین مزید مسائل سے دوچار ہوجاتی ہیں اور اپنے ساتھ ہونے والے تشدد کیخلاف آواز نہیں اٹھاتیں، معاشرے میں بدنامی کے ڈر سے ’’ایک چپ سو سکھ‘‘ دکھوں کو گلے لگا کر ذہنی تشدد سے بھی دوچار ہوتی ہیں، ذہنی تشدد کے حوالے سے خواتین کو آگاہی دینے کیلئے متحرک ہونا بہت ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ میڈیا کے ساتھ ساتھ سرکاری سطح پر کام کرنیوالے ادارے بھی عملی طور پر خواتین کے مسائل کے حل کیلئے کوئی ٹھوس اقدامات نہیں کرتے ہیں۔
ہیومن رائٹس واچ کی طرف سے 2009ء میں کی گئی ایک تحقیق کے مطابق یہ اندازہ لگایا گیا ہے کہ پاکستان میں 10 سے 20 فیصد کے درمیان خواتین کسی نہ کسی قسم کی زیادتی کا شکار ہوتی ہیں، سنگین صورتحال یہ ہے کہ تھامسن رائٹرز فاؤنڈیشن کے مطابق افغانستان کے بعد پاکستان کو خواتین کیلئے دنیا کا تیسرا خطرناک ملک قرار دیا گیا ہے۔
قومی کمیشن برائے انسانی حقوق (این سی ایچ آر) کی گھریلو تشدد کی رپورٹ کے مطابق 2021ء میں پاکستان میں صنفی بنیاد پر تشدد کے 14 ہزار 189 کیسز رجسٹرڈ ہوئے۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ خواتین کیخلاف ہونے والا گھریلو تشدد خاندان کے کسی فرد یا شوہر کی جانب سے ایسے فعل کو قرار دیا گیا جس میں جسمانی نقصان یا نفسیاتی تکلیف پہنچائی گئی ہو۔
مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ 40 فیصد خواتین کو اپنی زندگی میں جسمانی یا جذباتی تشدد کا سامنا کرنا پڑا، طلاق یافتہ، بیوہ اور علیحدہ ہونیوالی خواتین کو شادی شدہ خواتین کے مقابلے زیادہ تشدد کا سامنا کرنا پڑا، جبکہ گھریلو تشدد صرف ازدواجی تعلقات تک محدود نہیں تھا۔
پاکستان کیلئے ڈیموگرافک اینڈ ہیلتھ سروے (ڈی ایچ ایس) میں انکشاف کیا گیا کہ 15 سے 49 سال کی عمر کی 39 فیصد خواتین اپنی زندگی کے کسی نہ کسی حصے میں انٹی میٹ پارٹنر وائلنس (آئی پی وی) کا نشانہ بنیں۔
رپورٹ میں قانونی فریم ورک کے حوالے سے بتایا گیا کہ پنجاب پروٹیکشن آف ویمن اگینسٹ وائلنس ایکٹ 2016ء، ڈومیسٹک وائلنس پریونشن اینڈ پروٹیکشن ایکٹ سندھ 2013ء اور ڈومیسٹک وائلنس پریونشن اینڈ پروٹیکشن ایکٹ بلوچستان 2014ء سمیت 3 قوانین موجود ہیں، جبکہ ڈومیسٹک وائلنس اینڈ پروٹیکشن ایکٹ 2020ء زیر التواء ہے۔
رپورٹ کے مطابق گھریلو تشدد پر قابو پانے میں بنیادی مشکلات سماجی سطح پر تشدد نہ سمجھنا، ایف آئی آرز کے اندراج میں مشکلات، خواتین کی قانونی معلومات میں کمی، عدالتی نظام کا خوف اور متاثرہ خواتین کی بحالی کے ٹھوس اقدامات کا نہ ہونا ہے۔