کہیں دور، کسی سنسان وادی میں ایک دریا بہہ رہا ہے۔ اُس کی لہریں سنگلاخ چٹانوں سے ٹکرا کر ایک ساز چھیڑ رہی ہیں۔ یہ دریا محض پانی کا بہاؤ نہیں، یہ وقت کی روانی ہے۔ ایک بے رحم، بے لگام لہر جو کسی کا انتظار نہیں کرتی۔ جو اس کے ساتھ بہہ جائے، وہی کنارے پر پہنچتا ہے، جو رک جائے، وہ ماضی کے کھنڈرات میں دفن ہو جاتا ہے۔ دریا کے کنارے ایک نوجوان کھڑا ہے۔ پانی کی بے قرار لہریں اس کے قدموں سے ٹکرا رہی ہیں، جیسے اسے خبردار کر رہی ہوں کہ یا تو ان لہروں کے ساتھ بہہ جا، یا پھر اپنی راہ خود بنا۔ یہ دریا محض پانی کی روانی نہیں، بلکہ ٹیکنالوجی کے انقلاب کی وہ بے قابو لہر ہے جو ہر اُس قوم کو نگل رہی ہے جو اس کی رفتار کا ساتھ نہیں دے سکتی۔ پاکستان بھی آج ایسے ہی دریا کے کنارے کھڑا ہے۔ ایک ہاتھ میں خواب ہیں اور دوسرے میں ہواوے کا معاہدہ۔ سوال یہ ہے کہ ہم اس طوفان میں ڈوب جائیں گے، یا تیر کر کنارے جا لگیں گے؟
وزیرِاعظم شہباز شریف نے حال ہی میں چینی کمپنی "ہواوے" کے ساتھ ایک تاریخی معاہدہ کیا ہے، جس کے تحت تین لاکھ نوجوانوں کو ڈیجیٹل مہارتیں سکھائی جائیں گی۔ مصنوعی ذہانت، کلاؤڈ کمپیوٹنگ، سائبر سیکیورٹی۔ یہ وہ الفاظ ہیں جو کبھی ہمارے لیے محض اجنبی اصطلاحات تھیں، مگر آج یہ ہماری بقا کی ضمانت بن چکی ہیں۔ یہ وہ علوم ہیں جو آج کے ترقی یافتہ معاشروں میں نئی سلطنتوں کی بنیاد رکھ رہے ہیں۔ یہ محض ہنر نہیں، طاقت ہے۔ جو ان سے واقف نہیں، وہ آئندہ نسلوں کی قسمت کے فیصلے نہیں کر سکے گا۔ ہواوے کے ساتھ یہ معاہدہ محض ایک کاغذ کا ٹکڑا نہیں، بلکہ وہ طلسمی کنجی ہے جس سے پاکستان کا مستقبل ڈیجیٹل دور کے دروازے پر دستک دے سکتا ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا صرف ہواوے سے معاہدہ کافی ہے؟ کیا ترقی کی شاہراہ صرف ایک راستے پر چلتی ہے، یا ہمیں ہر دروازہ کھول کر دیکھنا ہوگا کہ کہاں کہاں سے روشنی آتی ہے؟
راولپنڈی کے ایک چھوٹے سے محلے میں اسلم نامی نوجوان رہتا ہے۔ ڈگری ہاتھ میں تھی، مگر روزگار کے دروازے بند تھے۔ نوکری کی تلاش میں شہر کے چکر کاٹتے کاٹتے اُس کے خواب بھی تھکنے لگے تھے۔ جب اس نے ہواوے کے تربیتی پروگرام کے بارے میں سنا تو اپنی قسمت آزمانے کی ٹھانی۔ آج وہ ایک کامیاب سائبر سیکیورٹی ماہر ہے اور چین کی ایک معروف کمپنی میں کام کر رہا ہے۔ اس کے گھر کی معاشی حالت بدل گئی ہے، ماں کے چہرے پر اطمینان ہے، بہنیں فخر سے کہتی ہیں کہ "ہمارا بھائی بیرون ملک انجینئر ہے!" لیکن اسلم اکیلا نہیں، اس جیسے ہزاروں نوجوان اس دریا کو پار کرچکے ہیں۔ مگر اب بھی لاکھوں "اسلم" کنارے پر کھڑے ہیں، سوالیہ نظروں سے ہمیں دیکھ رہے ہیں کہ کیا اُن کے لیے بھی کوئی امید کی کرن باقی ہے؟
وزیرِاعظم کا کہنا ہے کہ یہ تربیتی پروگرام پورے ملک میں متعارف کرایا جائے گا۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا یہ اعلان صرف شہروں کے لیے ہے؟ یا وہ دور دراز کے دیہات بھی اس کا حصہ ہوں گے، جہاں آج بھی انٹرنیٹ ایک خواب ہے؟ بلوچستان کے کسی گاؤں میں، جہاں بجلی کے کھمبے تو کھڑے ہیں مگر روشنی کا انتظار برسوں پرانا ہے، کیا وہاں کے نوجوان بھی سائبر سیکیورٹی سیکھ سکیں گے؟ کیا ہواوے کے تربیتی مراکز ان نوجوانوں کے لیے بھی اپنے دروازے کھولیں گے، یا یہ پروگرام صرف شہری نوجوانوں کے لیے مخصوص رہے گا؟ سوال یہ ہے کہ کیا ڈیجیٹل انقلاب کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہماری خود غرضی تو نہیں ہوگی؟
یقینا چین ہمارا "آہنی بھائی" ہے اور اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ ہواوے جیسے منصوبے پاکستان کو جدید ٹیکنالوجی کے قریب لا سکتے ہیں۔ مگر کیا ہم ہمیشہ دوسروں کے سائے میں کھڑے رہیں گے؟ کیا ہم خود اپنا راستہ بنانے کی ہمت نہیں رکھتے؟ دنیا میں صرف چین نہیں، جاپان، جرمنی، امریکہ بھی ہیں، جہاں ٹیکنالوجی کی سلطنتیں آباد ہیں۔ تو ہم ان سے بھی سیکھنے کی سوچ کیوں نہیں رکھتے؟ کیا ترقی کا راستہ صرف ایک دروازے سے ہو کر گزرتا ہے؟ یا ہمیں ہر کھڑکی کھولنی ہوگی تاکہ تازہ ہوا ہمارے مستقبل کو بھی مہکا سکے؟ کیوں نہ ہر ملک سے سیکھیں، تاکہ ہمارا مستقبل صرف ایک سمت کا محتاج نہ رہے بلکہ ہر جانب روشنی پھیلے؟ چین سے دوستی پر کوئی سوال نہیں، مگر کیا ہم اس دوستی میں اپنی شناخت برقرار رکھ سکیں گے؟
ملک میں ہزاروں آئی ٹی گریجویٹس ہیں، جو کاغذی ڈگریاں ہاتھ میں تھامے، در در کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔ اُن سے کلاؤڈ کمپیوٹنگ کا مطلب پوچھیں تو وہ خاموش ہو جائیں گے۔ کیونکہ ہمارے تعلیمی نظام میں یہ سکھانے والا کوئی نہیں۔ ہماری یونیورسٹیاں کتابیں پڑھاتی ہیں، مگر مہارت نہیں دیتیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ نوجوان ہاتھ میں کاغذ لیے مارے مارے پھرتے ہیں، مگر ہنر کی کمی کے باعث نوکری کے دروازے اُن پر بند رہتے ہیں۔ اگر یہ تربیت اتنی اہم ہے تو پھر ہمارے تعلیمی نظام کا حصہ کیوں نہیں؟ کیوں ہر سال ہزاروں نوجوان وہی پرانا نصاب پڑھ کر باہر آتے ہیں، جسے دنیا کب کی ترک کرچکی ہے؟
آج دنیا ایک نئی جنگ میں داخل ہوچکی ہے۔ اب ہتھیار گولی اور بارود نہیں، ڈیٹا ہے۔ جو قومیں اپنی ٹیکنالوجی کو خود کنٹرول کر رہی ہیں، آج بھی وہی طاقتور ہیں۔ عالمی طاقتیں ٹیکنالوجی کے ذریعے اقوام کو اپنی گرفت میں لے رہی ہیں۔ آج ہمارا ڈیٹا، ہماری تحقیق، ہماری ذہانت سب کچھ بیرونی سرورز میں قید ہے۔ کیا ہواوے کا معاہدہ ہمیں ان زنجیروں سے آزادی دلا پائے گا، یا ہم چین کے ڈیجیٹل غلام بن جائیں گے؟ کیا یہ ترقی اپنی شرائط پر ہوگی، یا ہمیں پھر سے نئی استعماریت کے حوالے کر دیا جائے گا؟
کراچی کی زینب ایک عام سی لڑکی تھی۔ گھر میں کمپیوٹر تک نہیں تھا، بس ایک پرانا سا موبائل تھا۔ اس نے ہواوے کے آن لائن کورسز سے استفادہ کیا، اپنی مہارتوں کو نکھارا اور آج ایک کامیاب فری لانس ڈویلپر بن چکی ہے۔ وہ کہتی ہے کہ "اگر آپ ہار مان لیں تو دریا آپ کو بہا لے جائے گا۔ اگر آپ لڑیں تو کنارے پر پہنچنے کا راستہ خود بنا سکتے ہیں۔" سوچیں، ایک لڑکی جو وسائل کے بغیر آگے بڑھ سکتی ہے، تو ایک پورا ملک کیوں نہیں؟ یقین جانیے، یہ لڑکی پاکستان کی ہر ڈیجیٹل پالیسی سے زیادہ مضبوط ہے۔
تھوڑی دیر کیلئے تصور کریں، ایک ایسا پاکستان جہاں ہمارے نوجوان چین یا کسی اور ملک پر انحصار نہ کریں، بلکہ خود ٹیکنالوجی میں ایسی ایجادات کریں کہ دنیا حیران رہ جائے۔ جہاں مصنوعی ذہانت کی طاقت ہماری اپنی ہو، جہاں ڈیٹا ہماری اپنی زمین میں محفوظ ہو، جہاں ترقی کا انحصار بیرونی طاقتوں پر نہ ہو بلکہ ہماری اپنی محنت پر ہو۔ مگر یہ خواب تبھی حقیقت بنے گا جب ہم یہ سمجھیں گے کہ ڈیجیٹل ترقی صرف "ٹریننگ پروگرامز" سے نہیں آتی، بلکہ یہ ترقی قومی عزم، مؤثر حکمتِ عملی اور خود مختاری کے ساتھ آتی ہے۔
یہ خواب آج شاید مشکل لگے، مگر یہ ناممکن نہیں ہے۔ مگر یہ خواب تبھی حقیقت میں بدلے گا، جب ہم صرف منصوبے بنانے سے آگے بڑھیں گے، جب ہم اپنے تعلیمی نظام کو جدید بنائیں گے، جب ہم صرف اعلان نہیں، بلکہ عمل کریں گے۔
ہواوے کے ساتھ حکومت کا یہ معاہدہ خوش آئند ہے، مگر صرف ایک قدم کافی نہیں۔ ہمیں اپنی تعلیمی پالیسی کو جدید خطوط پر استوار کرنا ہوگا، نوجوانوں کو جدید علوم میں مہارت دلوانی ہوگی اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ہمیں یہ فیصلہ خود کرنا ہوگا کہ ہم دریا میں بے بس بہنے والوں میں شامل ہونا چاہتے ہیں یا ان موجوں پر سوار ہو کر اپنی منزل خود متعین کرنا چاہتے ہیں۔ اگر ہم نے اس موقع کو صحیح طریقے سے استعمال کیا تو شاید آنے والی نسلیں ہمیں یوں یاد کریں گی کہ
"یہ وہ قوم تھی، جس نے ایک وقت میں خواب دیکھے اور انہیں حقیقت میں بدلنے کا حوصلہ بھی رکھا۔"
تعارف:
اس تحریر کے مصنف مصطفیٰ صفدر بیگ پیشے کے اعتبار سے صحافی ہیں اور آج کل ڈیجیٹل ٹیکنالوجیز سے وابستہ ہیں ، انہیں x.com پر
پر فالو کیا جاسکتا ہے۔