بھارت میں ہندوؤں کے مقدس مہا کمبھ میلے کے دوران گنگا کا پانی زہریلا ہونے کے انکشاف نے سنسنی پھیلا دی۔ لاکھوں یاتری جو پاکیزگی کی نیت سے دریائے گنگا، یمنا اور سابر میں غوطے لگاتے ہیں، آلودہ پانی کی وجہ سے سنگین بیماریوں کے خطرے سے دوچار ہو چکے ہیں۔
اس سال مہاکمبھ میں 50 کروڑ سے زائد ہندو یاتری شریک ہوئے، لیکن گنگا کا پانی آلودگی کی انتہا کو پہنچ چکا ہے۔ آلودگی کنٹرول بورڈ (سی پی سی بی) کے مطابق، گنگا کا پانی نہ صرف پینے بلکہ نہانے کے قابل بھی نہیں رہا۔
سی پی سی بی کے مطابق، پینے کے پانی میں بی او ڈی (بایو کیمیکل آکسیجن ڈیمانڈ) کی سطح صفر اور نہانے کے لیے 3 ملی گرام فی لیٹر ہونی چاہیے، لیکن مہاکمبھ کے دوران یہ حد 3.94 ملی گرام فی لیٹر تھی، جو 19 جنوری تک 5.29 ملی گرام فی لیٹر تک جا پہنچی۔
فیکل کولیفورم بیکٹیریا کی مقدار بھی تمام نگرانی شدہ مقامات پر انتہائی زیادہ پائی گئی۔ رپورٹ کے مطابق، گنگا کے پانی میں فیکل بیکٹیریا کی مقدار 4900 ایم پی این تک تک جا پہنچی، جو انسانی صحت کے لیے زہر سے کم نہیں۔
ماحولیاتی ماہرین اور اپوزیشن جماعتوں نے مودی سرکار کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ حکومت نے اصل مسائل سے توجہ ہٹانے کی کوشش کی اور گنگا کی آلودگی کو چھپانے کے لیے یوپی پولوشن کنٹرول بورڈ سے گمراہ کن رپورٹیں جاری کروائیں۔
نمامی گنگا منصوبے کے تحت 400 ارب روپے خرچ ہونے کے باوجود گنگا کی آلودگی کم ہونے کے بجائے مزید بڑھ گئی۔ مودی حکومت نے اس منصوبے کو بار بار ملتوی کر کے عوام کو دھوکہ دیا۔
ڈاکٹر اجے سنکار پر اعتماد ظاہر کر کے حکومت نے اپنی ذمہ داری سے پہلو تہی کی، جبکہ صاف پانی کی فراہمی میں ناکامی پر کوئی اقدامات نہیں کیے گئے۔
عوامی حلقوں میں شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے، ماہرین کا کہنا ہے کہ مودی حکومت دہشت گردی کے بیانات دینے کے بجائے اپنی عوام کے مسائل حل کرنے پر توجہ دے، ورنہ یہ آلودگی لاکھوں زندگیاں نگل لے گی۔