چیمپئنز ٹرافی میں بھارت کے خلاف پاکستانی ٹیم کی کارکردگی کو دیکھتے ہوئے اب محض سرجری سے کام نہیں چلے گا بلکہ محسن نقوی کو ٹرانسپلانٹ کی تیاریاں شروع کرنی ہوں گی ، جس طرح کی کارکردگی پاکستانی ٹیم کی جانب سے دکھائی گئی اس سے کسی بھی موقع پر ایسا ظاہر نہیں ہوا کہ گرین شرٹس یہ میچ جیتنے کیلئے کھیل رہے ہیں بلکہ وقت پر درست فیصلوں کا فقدان واضح تھا،بیٹنگ کے شعبے میں تمام بڑے برج ریت کی عمارتیں ثابت ہوئے جو بھارتی باولرز کے آگے دھڑا دھڑ گرتے چلے گئے، شکست کو فخر زمان کے انجرڈ ہونے سے کمبی نیشن خراب ہونے پر ڈال دیا گیا ، سعود اور رضوان کی پارٹنر شپ نے سکور ایوریج کو بری طرح متاثر کیا، سکور کی سینچری تو نہیں بنا پائے البتہ ڈاٹ بالز کی سینچری ضرور بنائی گئی ، پولین میں بیٹھے کرکٹرز کا بھی مورال ڈاون کر دیا گیا کہ پتا نہیں کتنی ہی مشکل پچ ہے جس پر کھیلنا بھی محال ہوا پڑا ہے ، آج کل ون ڈے میں بھی ٹی ٹوینٹی کا اثر دکھائی دیتاہے ساڑھے تین سو کا ٹارگٹ حاصل کرنا بھی اب ناممکن نہیں رہا جو آسٹریلیا نے حال ہی میں انگلینڈ کیخلاف کیا، شاہین شاہ آفریدی کو باونڈریز پر باونڈریز لگ رہی تھیں لیکن محمدرضوان باولر تبدیل کرنے کی بجائے بار بار انہیں سے اوور کروا کر رسک لے رہے تھے جبکہ یہ واضح تھا کہ دبئی کی پچ سپنرز کو سپورٹ کرے گی لیکن صرف ایک ہی فل ٹائم سپنر ابرار کا انتخاب کیا گیا ۔
قومی کرکٹ ٹیم کی کارکردگی دیکھ کر کہیں بھی ایسا نہیں لگا کہ یہ انٹرنیشنل ٹیم کھیل رہی ہے ، پی سی بی نے چیمپئنز ٹرافی کھیلنے آنے والی غیر ملکی ٹیموں کے ساتھ پریکٹس میچز کیلئے تین ٹیمیں تشکیل دیں جنہیں ’ پاکستان شاہینز ‘ کانام دیا گیا ، ان ٹیموں نے مہمان ٹیموں کے ساتھ پریکٹس میچز کھیلے جن میں سے یہ دو میچز جیتنے میں کامیاب ہوئیں جو کہ افغانستان اور بنگلہ دیش کیخلاف تھا، بنگلہ دیش کیخلاف دبئی میں کھیلے گئے میچ میں پاکستان شاہینز نے بنگلہ دیش کی پوری ٹیم کو 38 اوورز میں آوٹ کیا ، اس میں اسامہ میر نے 4 وکٹیں لیں۔ بھارت سے شکست کے بعد پی سی بی اور ٹیم مینجمنٹ مکمل خاموش دکھائی دیتی ہے جبکہ اس دوران کسی بھی کھلاڑی کی جانب سے کوئی سوشل میڈیا پیغام بھی سامنے نہیں آیا، پی سی بی کی یہ خاموشی کیا کسی طوفان کا پیش خیمہ تو نہیں ؟ جو گزر گزر گیا وہ گزر گیا کو اب بھولنا ہوگا، پاکستان کی کرکٹ کی ساکھ کو بچانے کیلئے محسن نقوی کو سخت فیصلے کرتے ہوئے سرجری نہیں بلکہ ٹرانسپلانٹ کرنا ہوگا، بھاری معاوضے لیکن صفر کارکردگی والوں کو سبق سکھانا ہوگا، ورلڈ کپ میں امریکہ سے شکست کھانے والی ٹیم تو سرجری سے بچ گئی لیکن دیکھنا ہوگا کہ محسن نقوی اب کیا اقدامات کرتے ہیں جس پر اس وقت تمام پاکستانی شائقین کرکٹ کی نظریں جمی ہوئی ہیں ۔
پاکستان کرکٹ بورڈ کی مکمل توجہ چیمپئنز ٹرافی کے پاکستان میں انعقاد کو کامیاب بنانے پر لگی ہوئی ہے ، اس وقت ملک میں 7 غیر ملکی ٹیمیں موجود ہیں جن کی سیکیورٹی اور میچز کا انعقاد سب سے اہم مرحلہ ہے جو کہ یقینی طور پر بہترین انداز میں اپنے اختتام کو پہنچے گا اور پاکستان میں کرکٹ کی جیت ہو گی ۔ اس کے بعد اکتوبر 2025 میں بھارت میں ایشیاء کپ ہونے جارہاہے جو کہ ٹی ٹوینٹی فارمیٹ پر کھیلا جائے گا ، آئی سی سی میں طے ہونے والے معاہدے کے مطابق پاکستان بھارت میں کوئی میچ نہیں کھیلے گا اور قومی ٹیم کے تمام میچز ممکنہ طور پر دبئی میں ہی ہوں گے تو دیکھنا یہ ہے کہ یہی پچ ہو گی اور اس ٹورنامنٹ کیلئے پی سی بی مینجمنٹ کیا فیصلے کر تی ہے ۔ ایشیا کپ درحقیقت 2026 مارچ میں شیڈول ٹی ٹوینٹی ورلڈکپ کی تیاری کیلئے ایک اہم ترین موقع ہوگا ۔